کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 374
اور نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے پانی کا طلب کرنا اور نوحہ کرنا۔‘‘ [1] مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے جس کو آپ نے سنیں کہ وہ جاہلیت کے انداز میں عزا داری کررہا ہو ؛ تو اسے اس کی ماں کی شرمگاہ کی گالی دو ؛ اور اس میں کوئی کنایہ نہ کرو۔‘‘ [2] حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کے اپنے آباء پر فخر کرنا ختم کردیا ہے ۔ انسان صرف دوقسم کے ہیں ۔ یا تو نیک اور متقی یا پھر بد کردار اور فاجر۔‘‘ [3] رہ گیا مسئلہ کہ خلافت قریش میں ہوگی؛ اور یہ معاملہ شریعت اوردین میں سے ہے۔ تو پھر اس بارے میں نصوص بڑی معروف اور منقول و ماثور ہیں جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کیا کرتے تھے۔ بخلاف اس کے کہ خلافت قریش کی شاخوں میں سے کسی ایک شاخ میں ہو۔ پس بیشک ایسی کوئی روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے بھی روایت نہیں کی۔ اور نہ ہی کسی ایک نے کوئی ایسی بات کہی ہے کہ قریش میں کوئی ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلافت کا حقدار ہو۔ پس ایسے امور پر جب کوئی عالم غور و فکر کرے اورنصوص شریعت اور سیرت صحابہ پر تدبر کرے ؛ تو اسے ایسا علم ضروری حاصل ہوجائے گا جس کا دل سے انکار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے ہاں انتہائی مشہورہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو باقی تمام حضرات پر تقدیم اور سبقت حاصل تھی۔ اور یہ کہ آپ باقی تمام لوگوں سے بڑھ کر خلافت نبوت کے حق دار تھے۔ اور یہ معاملہ مسلمانوں کے ہاں بالکل واضح ہے۔اس میں کسی ایک کے لیے بھی کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: (( یأبی اللہ والمؤمِنون ِإلا أبا بکر ۔)) ’’ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہر ایک کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم اور افضلیت کا سب کو معلوم تھا۔اور انہیں اس بات کا علم
[1] مسلِم 2؍644ِکتاب الجنائِزِ، باب التشدِیدِ فِی النِیاحۃِ؛ المسندِ ط. الحلبِی5؍342؛ المستدرک ِ لِلحاِکمِ 1؍383؛ الأحادِیثِ الصحِیحِۃ لِلألبانِیِ 2؍299 حدِیث رقمِ 734.۔ [2] الحدِیث فِی المسندِ ط. الحلبِیِ 5؍136 ؛ عن أبیِ بنِ کعب رضِی اللّٰہ عنہ . وفِی النِہایۃِ لِابنِ الأثِیرِ 4؍256: ومِنہ الحدِیث: من تعزی بِعزاِء الجاہِلِیۃِ فعِضوہ بِہنِ أبِیہِ ولا تکنوا. أی قولوا لہ: أعض أیر أبِیک . وفِی اللِسانِ: ہن المرئِ: فرجہا . [3] فِی سننِ أبِی داود 4؍450 کتاب الأدبِ، باب فِی التفاخرِ بِالأحسابِ؛ والحدِیث ؛ مع اختِلاف فِی الألفاظِ فِی سننِ التِرمِذِیِ 5؍390 ؛ کتاب المناقِبِ، وقال التِرمِذِی: ہذا حدِیث حسن؛ وحسن الألبانِی الحدِیث فِی ؛ صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ " 2؍119.