کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 373
ابوبکر کے علاوہ مہاجرین وانصار میں سے کوئی ایک ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلافت کا حق دار ہے ۔ اورنہ ہی آپ کی خلافت میں کسی نے جھگڑا کیا ۔ ہاں ! بعض انصار کی خواہش تھی کہ ایک امیر انصار میں سے ہواور ایک امیر مہاجرین میں سے۔ اس نظریہ کاباطل ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے والی متواتر نصوص سے ثابت ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ تمام انصار نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی سوائے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ؛ اس لیے کہ آپ خلافت کے طلبگار تھے۔ اور کسی ایک نے بھی ہرگز یہ بات نہیں کہی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کے خلیفہ ہونے کے بارے میں صراحت آئی ہے۔ نہ ہی حضرت علی کے بارے میں اور نہ ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ۔ اورنہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود اس کا دعوی کیا اورنہ ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اور نہ ہی کسی دوسرے صحابی نے ؛ رضی اللہ عنہم ۔اور نہ ہی حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہماکے محبین میں سے کسی ایک نے یہ کہا کہ ان دو حضرات میں سے کوئی ایک خلافت کا زیادہ مستحق ہے؛ اورنہ ہی کسی نے ان کے بارے میں نصوص وارد ہونے کا دعوی کیا۔ بلکہ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی کوئی انسان قریش میں ایسا ہے جو خلافت کا زیادہ حق دار ہو۔ نہ ہی بنی ہاشم میں سے اور نہ ہی غیر بنی ہاشم میں سے ۔ یہ ایسا معاملہ ہے جسے علم حدیث رکھنے والے علماء بہت اچھی طرح جانتے ہیں ‘ اور ان کے ہاں یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے ۔ عبد مناف کے کچھ لوگوں ؛جیسے : ابو سفیان ؛اور خالد بن سعید سے نقل کیا گیا ہے کہ ان کا ارادہ یہ تھا کہ خلافت صرف بنو عبد مناف میں ہونی چاہیے۔ اور انہوں نے اس بات کا ذکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہماسے بھی کیا؛ مگر انہوں نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس لیے کہ یہ دونوں حضرات اور باقی تمام مسلمان جانتے تھے کہ اس وقت مسلمانوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ کوئی دوسری شخصیت نہیں ہے۔ خلاصہ کلام ! انصار اور بنی عبد مناف کے جتنے بھی لوگوں کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہٹ کرکسی کو خلیفہ بنانے کے طلبگار تھے؛ تو ان کے پاس کوئی دینی اور شرعی حجت نہیں تھی۔ اور نہ ہی کسی کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل اور ان سے بڑھ کر خلافت کا حق دار کوئی دوسرا بھی تھا[ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی]۔ بلکہ اس کلام کی اصل وجہ اپنی قوم و قبیلہ کی محبت تھی۔ اور وہ یہ چاہتے تھے کہ خلافت ان کی قوم میں ہو۔ اور یہ بات سبھی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی محبت نہ ہی شرعی دلیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی دینی طریقہ ۔ اور نہ ہی اس قسم کی چیزوں کی اتباع کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو دیا ہے۔ بلکہ یہ بھی جاہلیت کی ہی ایک قسم ہے۔ اور قبیلہ اور نسب کے لیے جاہلی تعصب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چیزوں کو ختم کرنے اور انہیں جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کی ایسی ہیں کہ وہ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ اپنے حسب پر فخر