کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 372
ہوتی۔جیساکہ غزوہ تبوک میں آپ کو نائب مقرر کرنے کی حدیث۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر خلیفہ کے لیے منصوص ہونا واجب ہے تو پھر ان دلائل کی روشنی میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا منصوص ہونا زیادہ اولی ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پہلے آپ کے دلائل باطل ٹھہرتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی طرف رہنمائی کی تھی۔اوراپنے متعدد اقوال و افعال سے اس جانب اشارے دیے تھے۔اور آپ کو خلافت اپنی رضامندی سے اور آپ کی تعریف کرتے ہوئے دی۔ اور آپ نے یہ ارادہ بھی فرمایا تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کوئی تحریری عہد نامہ چھوڑ دیا جائے ۔ پھر آپ کو آثار و قرائن سے معلوم ہوچلا کہ مسلمان بالاتفاق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالیں گے؛ اس لیے اس پر اکتفاء کرتے ہوئے آپ نے تحریر لکھوانے کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر اپنی بیماری کی حالت میں بروز جمعرات نے آپ نے دوبارہ ارادہ کیا کہ کوئی عہد لکھوایا جائے ؛ پھر جب آپ کے ارادہ میں جب بعض لوگوں کو بیماری کی وجہ سے شک گزرا کہ کیا آپ بیماری کی وجہ سے ایسے کہہ رہے ہیں یا پھر آپ کا واجب الاتباع حکم ہے ؟ تو آپ نے پھر اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔ اس لیے کہ آپ کو یہ علم ہوگیا تھا کہ اللہ کی مشیت بھی یہی ہے ‘ اور مؤمنین بھی آپ کو ہی خلیفہ بنائیں گے۔اگر آپ کا متعین کیا جانا امت کے لیے ایک مشتبہ امر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری تھا کہ آپ دو ٹوک الفاظ میں کھل کر بیان فرما دیتے تاکہ کسی کو کوئی عذر نہ رہے ۔ لیکن جب اتنی دلیلیں موجود تھیں جن کی روشنی میں سمجھا جاسکتا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی آپ کے خلیفہ ہوں گے تو اس سے مقصود حاصل ہوگیا۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا:
’’ اللہ کی قسم ! تم میں ایک بھی ایسا نہیں جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مانند ہو‘ جس کے لیے گردنیں ماری جائیں ۔‘‘ [1]
نیز صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے موقعہ پر مہاجرین و انصار کے سامنے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ ارشادفرمایاتھا:
’’ آپ ہمارے سردار ہیں ‘ اور ہم سب سے بہتر ہیں ۔ اور ہم سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہیں ۔‘‘ [2]
اس وقت کسی بھی انسان نے اس بات کا انکار نہیں کیا ۔ اور نہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے یہ کہا کہ :
[1] البخاری۸؍۱۶۹؛ ِکتاب الحدودِ، باب رجمِ الحبلی مِن الزِنا ِلإذا حصِنت) ؛ ابنِ ہِشام: (السِیر النبوِی 4؍309، القاہِرۃ،1355؍1936؛ المسندِ ط. المعارِفِ) ج 26؛ ص 391؛ وقد وجدت فِی صحیح مسلم 3؍1317؛ ِکتاب الحدودِ، باب رجمِ الثیِبِ مِن الزِنا) قِطعۃ مِن خطبِ عمر ولِکن لیس فِیہا ہذِہِ الجملۃ، وانظر جامِع الأصولِ لِابنِ الأثِیرِ 4؍480.۔
[2] البخاری ۵؍۷۔ فِی البخاری 5؍7 (تاب فضائِلِ أصحابِ النبِیِ ، باب مناقِبِ أبِی بکر الصِدِیقِ، 8؍168 ۔ ؛ ِکتاب الحدودِ، باب رجمِ الحبلی ؛ المسندِ ط. المعارِفِ 1؍323۔