کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 37
واستقبال میں علماء کی صلاحیت اور رجوع الی اللہ کے باعث اسلام کی شوکت رفتہ پھر لوٹ کر آئے گی ۔اور انہی کی جدوجہد کے بل پوتے پر اسلامی نظام کوحیات نو حاصل ہوگی۔ وَمَا ذٰ لِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ۔
جس طرح امرا اور اہل ثروت کے بیٹے اپنے آباء سے املاک واموال ورثہ میں پاکر دنیا میں عزت ومنصب حاصل کرتے ہیں ۔یہ دوسری بات ہے کہ برے ساتھی ان کو اس وہم میں مبتلا کردیں کہ ان کی خوشحالی وفارغ البالی کا راز اس ما ل کو برباد کرنے میں مضمر ہے ،اسی طرح ہم نے یہ اسلامی عز ومجد صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم سے ورثہ میں پائی ۔
ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ دنیا کی کسی قوم نے ایسا گراں بہاورثہ نہیں پایا ۔اسلامی ورثہ میں تقدس وبرکت کے اعتبار سے گراں تر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی وہ خدمت ہے جو آپ نے قرآن کی جمع وتدوین اور اس کو مصاحف میں محفوظ کرنے کے سلسلہ میں انجام دی ۔اگر کرۂ ارضی پر رہنے والے تمام مسلمان اس عظیم احسان وعنایت پر شب وروز ان کے لیے اجر وثواب کی دعائیں مانگیں تو بھی وہ ان کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔اللہ تعالیٰ ہماری جانب سے ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔(آمین)
اس عظیم میراث میں سے گراں قدر خزانہ ہر صحابی کی وہ توجہ ہے جوانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اقوال وارشادات ، سیرت و کردار اور اوامرونواہی کے تحفظ کے سلسلہ میں انجام دی ۔صحابہ نے یہ امانت جوں کی توں اپنے بھائیوں ، بیٹوں اور تابعین کو سپرد کر دی کسی نبی کے اصحاب نے امانت کی سپردگی میں ایسی احتیاط سے کام نہ لیا ہوگا۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ اخلاق و تشریع، اقوام و امم کی تکوین و تخلیق اور مختلف انسانی طبقات و اجناس و اوطان میں یگانگت پیدا کرنے کے لیے یہ عظیم ترین انسانی وراثت تھی۔بنی نوع انسان کی ان خدمات جلیلہ کے پیش نظر صرف وہی شخص صحابہ کی تنقیصِ شان کا مرتکب ہوسکتا ہے جو غیر مسلم ہو اور دوسروں کو دھوکہ دینا چاہتا ہو یا زندیق ہو اور اس کے ظاہر و باطن میں تضاد پایا جاتا ہو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تیسراورثہ ہم نے یہ پایا کہ انہوں نے اپنے اسلامی اخلاق و اعمال کو اسلام کا نمائندہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کو الفت و محبت کی نگاہ سے دیکھنے لگے، صحابہ اسلام کا بہترین عملی نمونہ قرار پائے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کے زمانہ میں روئے ارضی کی بسنے والی قومیں حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں ۔
خلفائے راشدین کے زریں عہد کے بعد جن خوش نصیب صحابہ و تابعین رحمہم اللہ نے صحیحین کی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ روایت[1] کے مصداق خلفاء قریش کے جھنڈے تلے جہاد کیا، وہ بھی اس فضیلت میں برابر کے شریک ہیں ۔
[1] البخاری،کتاب الاحکام(ح:۷۲۲۳)مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب الناس تبع لقریش،(ح:۱۸۲۱،۱۸۲۲)۔