کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 369
’’ تم اپنے والد اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ابوبکر کے لیے ایک عہد نامہ لکھ دوں ؛ تاکہ میرے بعد آپ کے معاملہ میں لوگ اختلاف نہ کریں ۔ مگر اﷲ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو( خلیفہ) تسلیم نہیں کر سکتے۔‘‘[سبق تخریجہ]
’’ایک روایت میں ہے : ’’ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام ابو بکر کے علاوہ کسی کو خلیفہ نہیں مانتے ۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ میں سو رہا تھا تو میں نے اپنے آپ کو ایک کنوئیں پر دیکھا جس پر ایک ڈول پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس سے پانی کے ڈول نکالے ۔پھر ابن ابی قحافہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈول لے لیا۔ انہوں نے ایک دو ڈول پانی کے نکالے اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری کو معاف کرے۔ اس کے بعد وہ ڈول مغرب کی طرف کوہٹ گیا اور عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو لے لیا۔ تو میں نے لوگوں میں کسی قوی و مضبوط شخص کو ایسا نہ پایا جو عمر رضی اللہ عنہ کی طرح رہٹ کھینچتا۔ اس نے بڑی قوت سے اس قدر ڈول نکالے کہ سب لوگوں کو سیراب کردیا۔‘‘ [1]
جیسا کہ یہ روایت : ’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘
اس معاملہ میں آپ سے یکے بعد دیگر کئی مرتبہ تکرار کیا گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا عرصہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے۔ ایک جمعرات سے دوسری جمعرات اور پھر پیر کے دن تک ۔ اورایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے؛ اور لوگوں کو بیٹھ کر امامت کروائی۔ اور باقی نمازیں آپ کے حکم سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی پڑھاتے رہے۔ اور جس دن آپ کا انتقال ہوا؛ اس دن آخری بار آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا؛ اس وقت لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔اس پر آپ کو بہت خوشی محسوس ہوئی۔ [2]
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری با جماعت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ادا کی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : ایسا نہیں ہے۔صحیحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منبر پر ارشاد فرمایا:
’’ اگر میں اہل زمین سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘ [3] [اس کی تخریج گزرچکی ہے]
[1] صحیح بخاری:کتاب مناقب انبیاء علیہم السلام کا بیان ::ح881 ۔
[2] سِیرۃ ابنِ ہِشام 4؍298؛ جوامِع السِیرۃِ لِابنِ حزم، ص 262، البخاری 1؍139 ؛ کتاب الأذانِ، باب من سمع الناس تکبِیر الإِمامِ ،1؍147. 2؍63 کتاب التہجدِ، باب من رجع القہقری فِی صلاتِہِ.
[3] الحدِیث بِہذِہِ اللفاظِ فقد جاء عن أبِی سعِید الخدرِیِ فِی البخاری 1؍96 ِکتاب الصلاِۃ، باب الخوخۃِ والممرِ فِی المسجِد؛ مسلِم 4؍1854 ؛ کتاب فضائل الصحابۃ، باب مِن فضائِلِ أبِی بکر ؛ سننِ التِرمِذِیِ 5؍278؛ کِتاب المناقِبِ، باب مناقِبِ أبِی بکر الصِدِیقِ.