کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 368
حضرت داؤد علیہ السلام اﷲ کے نائب تھے۔ جیسا کہ قائلین وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔
وحدت الوجود کے قائل یہاں تک کہتے ہیں کہ انسان کو ذات باری سے وہی تعلق ہے جو آنکھ کی پتلی کو آنکھ سے (یعنی دونوں ایک ہیں اور ان میں کچھ فرق نہیں)۔اوریہ اتحاد اور حلول کا نظریہ رکھنے والے ملحدین کاعقیدہ ہے :وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان اﷲ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا جامع ہے، اس کی دلیل میں وہ درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں :
﴿ وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّہَا ﴾ (البقرہ:۳۰)
’’اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب نام سکھلا دئیے۔‘‘
اہل وحدۃ الوجود کا نقطہ خیال ہے کہ انسان اﷲ کی مثل ہے جس کی تشبیہ کی نفی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ﴾۔’’اس کی مانند کوئی چیزنہیں ہوسکتی ۔‘‘
اس کے علاوہ بھی ان لوگوں کے ایسے فاسد عقائد ہیں جن میں ہی کوئی صحیح عقلی دلیل پائی جاتی ہے ‘ اورنہ ہی نقلی دلیل ۔جس کے تفصیلی بیان کایہ موقع نہیں ۔
مقصود یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ کا نائب نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ نیابت اس شخص کی ہوتی ہے، جو خود موجود نہ ہو۔ اور ذات باری ہمیشہ سے موجود اور مخلوقات کا ناظم و مدبر ہے۔ البتہ بندہ جب اپنے اہل و عیال میں موجود نہ ہو تو اﷲ تعالیٰ اس کا نائب ہوتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اہل و عیال کی حفاظت فرماتا ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو’’ یا خلفیۃ اﷲ ‘‘ کہہ کر پکارا گیا ؛تو آپ نے فرمایا:
’’میں تو صرف خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں میرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘[1]
[احادیث مبارکہ سے خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دلائل :]
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اس نص مذکور سے ثابت ہوتی ہے جو کہ گزشتہ احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پریہ حدیث :
’’ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !گر میں لوٹ کر آؤں اور آپ موجود نہ ہوں تو پھر کیا کروں ؟.... اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ فوت ہو جائیں تو پھر کیا کروں .... فرمایا :’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو جائیے۔‘‘[تخریج گزر چکی ہے۔]
اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے فرمایا:
[1] صحیح بخاری کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’ لو کنت متخذا خلیلاً( ح: ۳۶۵۹) ۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۶)