کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 365
آپ نے نام نہیں لیا ۔ پس راوندیہ کا نص کے بارے میں دعوی کرنا ویسے ہی ہے جیسے رافضہ کا دعوی۔ اس کے علاوہ بھی امامیہ سے کئی اقوال منقول ہیں ۔ ابو محمدابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ امامت صرف قریش کی اولاد میں ہی ہوسکتی ہے؛ ان کے مابین بھی اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کہتا ہے: ’’خلافت کا وجود فہر بن مالک بن نضر کی تمام اولاد میں جائز ہے۔ یہ قول جمہور اہل سنت و الجماعت اور مرجئہ اور معتزلہ نے اختیار کیا ہے۔‘‘ دوسرا گروہ کہتا ہے: خلافت صرف حضرت عباس بن عبد المطلب کی اولاد میں ہی ہوسکتی ہے۔ یہ کہنے والے راوندیہ ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے: خلافت صرف حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہوسکتی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے: خلافت صرف حضرت جعفر بن ابی طالب کی اولاد میں ہوسکتی ہے۔ پھر ان میں سے بھی صرف حضرت عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی اولاد تک محدود کرتے ہیں ۔ اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ بنو حارث بن عبدالمطلب کہتے تھے کہ:خلافت بالخصوص صرف آل عبد المطلب میں ہی ہو سکتی ہے۔ اور ان کا خیال ہے اس میں عبدالمطلب کی تمام اولاد شامل ہے۔ ان میں ابو طالب؛ ابو لہب ؛ عباس اور حارث شامل ہیں ۔‘‘ [1] آپ کہتے ہیں : ہم تک یہ بات پہنچی ہي کہ اردن میں ایک آدمی تھا ؛جو کہا کرتا تھا: خلافت صرف بنی عبد شمس میں ہی جائز ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں اس نے ایک کتاب بھی لکھ رکھی تھی۔ ہم نے ایک ایسی کتاب بھی دیکھی ہے جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی نے لکھی تھی۔ جس میں اس نے اس بات پر دلائل پیش کئے ہیں کہ خلافت صرف حضرت ابوبکر اورحضرت عمر رضی اللہ عنہماکی اولاد میں ہی جائز ہوسکتی ہے۔ اور اس پر تفصیلی کلام آگے مسئلہ امامت میں لوگوں کے اختلاف کی بحث میں آئے گا۔ یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رافضیوں کے اقوال آپس میں انتہائی تعارض رکھتے ہیں ۔ ان کا یہ دعوی کرنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے ‘ بالکل ایسے ہی ہے جیسے راوندیہ کا دعوی کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے ۔ اور ان دونوں اقوال کا باطل ہونا لا محالہ طور پر معلوم ہے۔اہل علم نے ان دونوں میں سے ایک بات بھی نہیں کہی۔ یہ تو اہل بدعت کے اپنی طرف سے گھڑے ہوئے اقوال ہیں ‘ جیسا کہ اس کے تفصیلی بیان میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے دیندار اور اہل علم لوگ کبھی بھی اس چیز کے دعویدار نہیں رہے۔اور اس مسئلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نصوص میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا کہنے والے اہل علم کی ایک جماعت ہیں ۔ جیسا
[1] سِیرۃ ابنِ ہِشام 1؍113، طبع مصطفی الحلبِیِ، القاہِرۃ، 1355؍1936.