کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 36
امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔[1]
مذکورہ بالاحدیث نبوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک ہے۔ اسلام کو جو عزت وعظمت اور استقامت دور صحابہ ،تابعین وتبع تابعین میں حاصل ہوئی آئندہ ادوار میں نصیب نہ ہوسکی۔ اموی خلافت پر اس مبارک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ بنو عباس کے وہ اوّلین خلفاء جنھوں نے اموی ماحول میں تربیت پائی تھی اسی عہد میں شامل ہیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ تبع تابعین میں سے آخری شخص جس کا قول مقبول ہے وہ ہے جو ۲۲۰ھ تک بقید حیات رہا۔ اس کے بعد بدعات کا دور دورہ ہوا اور حالات بڑی حد تک بدل گئے۔‘‘[2]
اس مبارک زمانہ کو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیر القرون‘‘ سے تعبیر فرمایا تھا۔ جو آپ کی صداقت کی زبر دست دلیل ہے۔یہ اسلام کازرّیں دور تھا ۔دین اسلام نے اس سے بڑھ کر نہ کبھی خیر وبرکت کا مشاہدہ کیا نہ اہل اسلام نے اس سے بڑھ کر کبھی عزّوشرف حاصل کیا نہ اس دور سے بہتر کبھی جہاد خالص دیکھا گیا نہ کرۂ ارضی کے دور افتادہ گوشوں تک کبھی دعوت اسلام اس وسعت کے ساتھ پہنچی ،اسی عصر وعہد میں حفاظ قرآن نے اکناف ارضی تک پہنچ کر لوگوں کو قرآن سے روشناس کرایا ۔نوجوان تابعین مختلف دیار وامصار میں پہنچ کر وہاں کے رہنے والے صحابہ سے حدیث نبوی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔مباداکہ صحابی کی موت سے وہ احادیث بھی ناپید ہوجائیں جو ان کے سینہ میں محفوظ ہیں ۔پھر تبع تابعین کا زمانہ آیا۔ وہ ہر ایسے خطۂ ارضی میں پہنچے جہاں کبار تابعین اقامت گزین تھے۔ اور ان سے وہ امانت حاصل کی جو انھوں نے صحابہ کرام سے سن کر یاد کر رکھی تھی۔ علیٰ ھٰذاالقیاس سنت نبوی کی یہ امانت ان لوگوں تک پہنچی جنھوں نے اس کی جمع وتدوین کا بیڑا اٹھایا ۔مثلا امام مالک رحمہ اللہ ،
امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے شیوخ وتلامذہ اور معاصرین، رجال تدوین کے یہاں پہنچتے وقت حدیث نبوی بالکل تروتازہ اور عطر نبوت سے بھر پور تھی ،حدیث نبوی کے امانت دار محافظین نے جوں کی توں یہ امانت دوسرے امانت دار محافظین تک پہنچا دی۔ آگے چل کر یہ امانت کتاب اللہ کے بعد مسلمانوں کے لیے نہایت گراں قدر ورثہ قرار پائی ۔
خلاصۂ کلام! صحابہ کے طفیل اللہ تعالیٰ نے حدیث نبوی کالازوال خزینہ ہمارے لیے محفوظ کر لیا ۔ان کی تلواروں سے ہی دیارو امصار اوربلاد فتح کیے اور ان کی مساعی جمیلہ سے ہی اسلامی دعوت پھلی پھولی ۔اور آج ہمارے لیے یہ عالمِ اسلام منصّۂ شہود پر جلوہ گر ہوا جس میں کثرت سے اوطان واقوام موجود ہیں اور ان علوم وعلماء کی بھی کمی نہیں جواسلام کے اولیں ادوار میں کرۂ ارضی کی زینت اور بے حد ناگزیر سمجھے جاتے تھے ۔زمانہ حال
[1] صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، (ح: ۲۵۳۶)
[2] فتح الباری ج۷ ص۴۔