کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 357
فصل: [مسئلہ خلافت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت] [اعتراض]: شیعہ کہتے ہیں :’’ اہل سنت کہتے ہیں کہ: ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو امام مقرر نہیں کیا تھا اور آپ بلا وصیت فوت ہو گئے۔‘‘ [جواب]: واضح ہو کہ یہ جمہور اہل سنت کا قول نہیں ۔ اہل سنت میں سے ایک جماعت کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت نص سے ثابت ہے۔[اہل سنت والجماعت میں ]امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کے مذہب میں یہ تنازع بڑا معروف ہے ۔ قاضی ابو یعلی نے اس ضمن میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں ذکر کی ہیں : ۱۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انتخاب کی بناء پر خلیفہ قرار پائے۔یہی اہل حدیث کی ایک جماعت ؛ معتزلہ اورا شاعرہ کا مذہب ہے ؛ اور قاضی ابو یعلی نے اسی مذہب کو اختیار کیا ہے ۔ ۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ کی امامت نص خفی اور اشارہ سے ثابت ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ؛ محدثین کی ایک جماعت؛ بکر بن اخت عبد الواحد رحمہم اللہ اور خوارج میں سے بھیسیہ اسی کے قائل ہیں ۔ان کے شیخ ابو عبد اللہ ابن حامد[1] کہتے ہیں : ’’باقی صحابہ اور اہل بیت کے برعکس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کتاب و سنت میں دلیل موجود ہے۔لیکن ہمارے اصحاب میں یہ اختلاف ہے کہ آپ کی خلافت نص سے ماخوذہے یا استدلال سے ۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں نص ذکر کی ہے۔ اور آپ کے متعلق حتمی طور پر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے [کہ آپ ہی خلیفہ ہوں گے]۔ اور ہمارے اصحاب میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ : ’’ آپ کی خلافت استدلال جلی سے ثابت ہے۔‘‘ [قاضی ابو یعلی کے استاد]ابن حامد نے کہا ہے : ’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کی نص وہ حدیث ہے جسے امام بخاری اپنی سندسے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔‘‘
[1] ابو عبداللہ الحسن بن حامد بن علی بن مروان البغدادی ؛ اپنے زمانہ میں حنابلہ کے امام تھے۔ ان کی ایک جامع کتاب ہے ’’ مذہب حنابلہ ‘‘ اور ایک تصنیف ’’شرح خرقی‘‘ ہے۔ آپ قاضی ابو یعلی کے شیخ اور استاذ تھے۔ دیکھو: طبقات حنابلہ ۲؍۱۷۶۔الاعلام ۲؍۲۰۱۔