کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 354
کی تعظیم میں ان کی قبروں کو ایسی رقت اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں جیسا کہ مسجدوں میں اور گھروں میں بھی نہیں کرتے۔ ایسی اور بھی کئی باتیں ہیں جو شیعوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ ٭ پھر یہ لوگ شیعوں کی طرح دنیا کی جھوٹی روایات بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ ان کا یہ قول ہے کہ ’’اگر پتھر کے ساتھ بھی حسن ظن ہو تو اللہ اس سے بھی نفع پہنچاتا ہے‘‘ اور یہ قول کہ ’’ان عبادتوں نے تم لوگوں کو تھکا دیا ہے اب ان قبر والوں کو لازم پکڑ کر دیکھو۔‘‘ اور یہ قول کہ ’’فلاں کی قبر تو مجرب تریاق ہے۔‘‘ ٭ پھر کسی شیخ کے بارے میں یہ روایت کرتے ہیں کہ اس نے اپنے ساتھی سے یہ کہا کہ ’’جب کوئی حاجت ہو تو میری قبر پر آ کر مجھ سے مدد مانگنا‘‘ اور یہ کہ بعض مشائخ مرنے کے بعد بھی حیات جیسے تصرفات کرتے ہیں ۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی مرے ہوئے بزرگ سے مدد مانگ رہا ہوتا تو شیطان اس کی صورت میں آ کر اسے گمراہ کرتا ہے۔‘‘ ایسا اس شیخ کی زندگی میں اور مرنے کے بعد ہونا بھی ممکن ہے۔ پھر شیطان اس کی صورت میں آ کر سائل کی حاجت یا بعض حاجت کو پورا کر دیتا ہے۔ بالکل ایسا ہی نصاری کے شیوخ کے ساتھ بھی ہوا اور عرب و ہند کے بت پرستوں کے ساتھ تو شیطان ایسا کرتا ہی ہے۔ [جواب ]: یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سب باتوں سے روکا ہے اور جس بات سے بھی اللہ اور اس کا رسول روکیں وہ مذموم اور ممنوع ہوتی ہے چاہے اس بات کا کرنے والا سنی ہو یا شیعہ۔ البتہ کتاب و سنت کے مخالف امور مذمومہ بہ نسبت سنیوں کے شیعہ حضرات میں زیادہ ہیں ۔ اہل سنت میں جو بھی شر ہے وہی شر شیعہ میں کہیں زیادہ ہے اور شیعہ میں جو بھی خیر ہے اہل سنت میں وہی خیر ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ٭ یہی حال مسلمانوں کا بہ نسبت یہود و نصاریٰ کے ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں جو بھی شر ہے، وہی شر اس سے کہیں زیادہ اہل کتاب میں ہے اور اہل کتاب میں جو بھی خیر ہے، وہی خیر ان سے کہیں زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے کفار مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ عدل کے ساتھ مناظرہ بیان کیا ہے۔ کہ اگر ان لوگوں نے مسلمانوں میں موجود کسی عیب کو ذکر کیا تو رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس عیب سے بری قرار نہ دیا البتہ یہ فرمایا کہ یہی عیب مسلمانوں کی نسبت کفار میں کہیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۷) ’’وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کی بابت پوچھتے ہیں ، کہہ دے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے