کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 352
امت کے لیے نمازوں ‘ باجماعت نمازوں ‘ جمعہ اور جماعت اور عیدین قائم کرکے اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے کو مشروع ٹھہرایاتھا۔ آپ نے اپنی امت کو ہر گز یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی نیک انسان یا نبی کی قبر پر مسجد بنائیں ‘ یا وہاں پر درگاہیں قائم کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں کسی نبی یا کسی نیک انسان کی قبر پر ہر گز نہ ہی کوئی مقبرہ ہوتا تھااورنہ ہی کچھ؛ نہ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر پر ؛ نہ ہی کسی دوسرے نبی کی قبر پر۔ بلکہ مسلمانوں نے کتنی ہی باربلاد ِ شام کا سفر کیا ۔حضرت عمر ؛ حضرت عثمان ‘ حضرت علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کئی بار شام گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتح بیت المقدس کے موقع پر شام گئے ‘ تاکہ آپ اہل ذمہ کے ساتھ معاہدہ کرکے بیت اللہ کی چابیاں وصول کرلیں ۔ پھر آپ وہاں سے سرغ کے علاقہ میں بھی گئے۔ان تمام چکروں میں کبھی کسی ایک نے بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی قبرکی زیارت کے لیے کوئی سفر نہیں کیا ۔ اور نہ ہی وہاں پر کوئی مقبرہ یا درگاہ موجود تھے۔ بلکہ وہاں پر ایک عمارت ہوا کرتی تھی جو ایسے گول اور بغیر دروازہ کے تھی جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حجرہ شریف۔بنوامیہ اور بنو عباس کے دور میں یہ سلسلہ ایسے ہی رہا ۔ یہاں تک کہ پانچویں صدی ہجری کے آخر میں جب ان علاقوں پر عیسائی غالب آگئے تو انہوں نے وہاں پر ایک گرجا بنالیا ۔ اور اس پرانی عمارت میں سوراخ کرکے ایک دروازہ بنالیا ۔ اس لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ دروازہ بنایا نہیں گیا ‘ بلکہ وہاں پر نقب لگائی گئی ہے ۔ پھر جب مسلمانوں نے یہ علاقے عیسائیوں سے واپس حاصل کر لیے تو بعض لوگوں نے وہاں پر مساجد بنالیں ۔ [ایسا صحابہ کے دور میں نہیں تھا ‘ بلکہ بعد میں ہوا ہے] اس لیے کہ صحابہ کرام جب کسی کو دیکھتے کہ وہ قبر پر مسجد بنا رہا ہے تو اسے منع فرمایا کرتے تھے۔ جب شہر تستر میں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر ظاہر ہوئی توحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا ؛ تو آپ نے جواب دیا کہ : دن کے وقت تیرہ قبریں کھودی جائیں ؛ اور رات کے وقت ان تیرہ میں سے کسی ایک میں دفن کردیا جائے ‘ تاکہ لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں ۔اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ لوگ کسی ایسی جگہ کو متبرک سمجھ کر نماز پڑھ رہے ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہو‘ تو آپ اس سے منع فرمایا کرتے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء کے نشانات و مقامات کوسجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے۔جو انسان وہاں پر نماز کا وقت پالے ؛ اسے چاہیے کہ نماز پڑھ لے ‘ ورنہ وہاں سے گزر جائے ۔‘‘[تاریخ الطبری ؍سترھویں سال کے واقعات ] یہ مسئلہ اور اس جیسے دوسرے مسائل جن سے توحید ثابت ہوتی ہو‘جو کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مرسلین کاپیغام ہے ۔ان میں سنن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں ۔