کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 35
وہ اس سعادت سے بہرہ اندوز ہوچکے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بعد کشتیٔ اسلام کے ناخدا قرار پائے اور جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:’’ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت محمدی کے افضل ترین فرد تھے ۔‘‘ [1] کاروانِ اسلام اﷲ کی نصرت وحفاظت میں رواں دواں رہا ۔چنانچہ دعوت محمدی کی علم بردار فوجیں ایک طرف سے وادیٔ نیل اور وہاں سے شمالی افریقہ تک جا پہنچیں اور دوسری جانب ایران کی آخری سرحد تک پہنچ کر دم لیا ۔جب حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے یہود ومجوس کی دسیسہ کاریوں سے جام شہادت نوش فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دو قدیم رفقا کی رفاقت آسان کردی تو مسلمانوں نے خلافت کیلئے ایک پاکیزہ خصال ،رحم دل ،حافظِ قرآن ،سخی اورحوادث روزگار پر صبر کرنے والی شخصیت کو پسند کیا.... وہ تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے (یکے بعد دیگرے) عقد نکاح باندھا اور اگر آپ کی تیسری بیٹی ہوتی توبھی آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چیدہ و برگزیدہ اصحاب کے مخلص بھائی اور ان کے بیٹوں کے شفیق باپ تھے ۔تابعین کبار میں سے حسن بصری اور ان کے معاصر ابن سیرین کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں امت ہر طرح خوشحال تھی اور ہر طرف امارت و ثروت کا دور دورہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بہادر مجاہدین نے اسلامی جھنڈوں کو سر زمین قفقاز میں جا لہرایا جب کہ کسریٰ کے سپہ سالار وہاں پہنچنے کی امید بھی نہیں کرسکتے تھے۔ بہر کیف مشرقی اور مغربی اقوام نے صحابہ کی سیرت وکردار ان کے عدل وانصاف رفق وتدبّر اور راہ حق پر استقامت واستقلال سے اسلام کا سبق سیکھا اور اسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی تصدیق ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے: ((خَیْرُالقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ)) ’’ بہترین میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو انکے قریب ہیں ؛ پھر وہ جو ان کے قریب ہیں ۔‘‘ امام ربّانی احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں یہ حدیث بروایت عبیدہ سلمانی قاضی کوفہ انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔[2] امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب نمبر ۶۲ باب اول میں یہ روایت حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔[3]عمران فتح مکہ کے دن عسکر نبوی میں قبیلہ خزاعہ کے علمبردار تھے ۔[4]
[1] مسند احمد(۱؍۱۰۶) من عدۃ طرق۔ [2] مسند احمد (۱؍۳۷۸،ح:۳۵۸۳) ، صحیح بخاری۔ کتاب الشھادات۔ باب لا یشھد علی شھادۃ جور اذا اشھد (ح:۲۶۵۲)، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ،(ح:۲۵۳۳)۔ [3] صحیح بخاری۔ (ح:۲۶۵۱،۲۶۵۰)،صحیح مسلم (ح: ۲۵۳۵) [4] الاصابۃ (۵؍۲۷)۔