کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 345
’’جس کے ساتھ حساب میں بحث کی گئی اسے عذاب ملے گا۔‘‘ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! کیا رب تعالیٰ یہ نہیں فرماتے: ﴿فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖo فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْرًاo﴾ (الانشقاق: ۷۔۸) ’’پس لیکن وہ شخص جسے اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا ۔ سو عنقریب اس سے حساب لیا جائے گا، نہایت آسان حساب۔ ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے مراد حساب کے لیے پیش ہونا ہے۔ البتہ جس سے حساب لیا جانے لگے گا اسے عذاب ہو کر رہے گا۔‘‘[1] ایک صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’تم میں سے کوئی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ لے۔‘‘[2] سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت میں ارشاد ہے: ’’اگر اللہ آسمانوں والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انھیں عذاب دے دے اور وہ اس میں ان کے حق میں ظلم کرنے والا نہ ہو گا اور اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہو۔‘‘[3] حساب میں مناقشہ اور طاعت کی حقیقت میں تقصیر کی وجہ سے یہ قول کیا جاتا ہے اور یہ اس کا قول ہے جو ظلم کو مقدور اور غیر واقع قرار دیتا ہے اور کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظلم کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ کہ ممکنات میں سے جتنا بھی فرض کیا جائے وہ ظلم نہیں اور تحقیق یہ ہے کہ اگر فرض بھی کیا جائے کہ یہ اللہ نے کیا ہے تو وہ اسے حق پر ہی کرے گا اور وہ ایسا کر کے بھی ظالم نہ کہلائے گا، لیکن جب اللہ نے ایسا نہیں کیا تو اس کی ذات ظلم کرنے سے بلند اور بزرگ ہے۔
[1] صحیح البخاری: ۱؍۲۸۔ صحیح مسلم: ۴؍۲۲۰۴۔۲۲۰۵۔ مسند احمد: ۶؍۴۷۔۴۸ طبعۃ الحلبی۔ تفسیر الطبری: ۹؍۲۴۴۔۲۴۵ طبعۃ المعارف۔ تحقیق استاذ محمود محمد شاکر۔ موصوف نے اپنی تعلیق میں بخاری و مسلم اور ابو داؤد و ترمذی کی احادیث کے طرق پر مفصل بحث کی ہے۔ [2] صحیح البخاری: ۷؍۱۲۱۔ صحیح مسلم: ۴؍۲۱۶۹۔۲۱۷۱۔ سنن ابن ماجہ: ۲؍۱۴۰۵۔ سنن الدارمی: ۲؍۳۰۵۔۳۰۶۔ [3] یہ حدیث مرفوع بھی آئی ہے اور موقوف بھی۔ مسند احمد: ۵؍۱۸۵ طبعۃ الحلبی۔ سنن ابی داود: ۴؍۳۱۰۔۳۱۱۔ سنن ابن ماجہ: ۱؍۲۹۔۳۰۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح البجامع الصغیر‘‘ (۱؍۵۷۔۵۸) میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔