کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 342
مصلحت ‘ رحمت اور منفعت غالب ہوتی ہے ۔
اکثر محدثین، فقہاء، صوفیاء اور معتزلہ کو چھوڑ کر ؛ اہل کلام یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ان کا قول ہے کہ اﷲ کی پیدا کردہ اشیاء میں بعض ضرر رساں بھی ہیں مثلاً گناہ۔ تاہم یہ کہنا پڑے گا کہ ان میں کوئی دوسری حکمت و مصلحت ضرور ہے جس کی بناء پر ان کی تخلیق عمل میں آئی۔ اوریہ کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ یہ مسائل دوسرے مقامات پر تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں ۔
انہوں نے تو صرف اقوال ہی بیان کیے ہیں ۔ ہم نے ان میں غلط اور صحیح اقوال کو واضح کر دیا ہے اور جن اقوال کو یہ نقل کر رہا ہے وہ اس کے رافضی شیوخ کا کلام نہیں ۔ بلکہ یہ معتزلہ کے کلام میں سے ہے۔ جیسے ابو علی، ابو ہاشم اور ابو الحسین بصری وغیرہ کے اصحاب؛ اور دیگر حضرات ۔
ان لوگوں نے بالخصوص اشعریہ کا ردّ کیا ہے۔ کیونکہ اشعریہ اور قدر کو ثابت کرنے والے بعض لوگوں نے جہم بن صفوان کی اصل ’’جبر‘‘ میں ان کی موافقت کی ہے۔ اگرچہ انھوں نے جہم سے قدرے لفظی نزاع بھی کیا ہے اور بڑی غیر معقول باتیں کی ہیں ۔ لیکن انھوں نے نفی صفات میں جہم کی موافقت نہیں کی۔ بلکہ انھوں نے صفات کا اثبات کیا ہے۔ اسی لیے ان لوگوں نے تقدیر کے مسائل میں معتزلہ کی مخالفت میں بے حد مبالغہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ انھیں ’’جبریہ‘‘ کہا جانے لگا اور انھوں نے حیوان میں موجود قُویٰ اور طبائع تک کا انکار کر دیا کہ ان کی حوادث میں کوئی تاثیر یا سببیت نہیں ہے اور نہ یہ کہا جائے کہ اس نے اس افعال و حوادث کو کیا ہے اور انھوں نے مخلوقات کے لیے کسی حکمت یا علت کے ہونے کا بھی انکار کر دیا۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ انھوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ اللہ بندوں کی جلبِ منفعت یا دفع مضرت کے لیے کوئی فعل کرتا ہے۔ یہ لوگ اس بات کے بھی قائل نہیں کہ وہ کسی بھی مصلحت کے لیے فعل نہیں کرتا۔ بلاشبہ یہ مکابرہ ہے بلکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہ تو یہ اس پر واجب ہے اور اس سے اس کا وقوع لازم ہے اور کہتے ہیں کہ وہ کسی بات کے لیے یا کسی بات کے ذریعے کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں کیونکہ اس کا ارادہ دونوں کو ملا ہوتا ہے۔ پس وہ ایک کو اس کے ساتھی کے ساتھ کرتا ہے۔ نہ اس کی خاطر اور نہ اس کے ذریعے اور دونوں میں اقتران یہ عادتِ جاریہ کی بنا پر ہے نہ کہ اس لیے کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کا سبب یا اس کی حکمت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن میں جہاں بھی اپنے خلق و امر کو بیان کیا ہے لامِ تعلیل کے بغیر بیان کیا ہے۔ امام احمد، مالک اور شافعی وغیرہ کی ایک جماعت نے اس بات میں ان کی موافقت کی ہے۔ باوجودیکہ یہی فقہاء جو کتب کلام میں اس بابت ان کی موافقت کرتے ہیں ، فقہ، تفسیر، حدیث اور دلائل فقہ کے بیشتر مسائل میں ان کے خلاف قول کرتے ہیں ۔ جبکہ اصول فقہ میں ان کا کلام کبھی معتزلہ کے تو کبھی اہل سنت کے موافق ہوتا ہے۔