کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 341
’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے اطاعت شعار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلم جماعت تیار کردے۔‘‘ آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی فرمائی کہ وہ مہربان ذات انہیں مسلمان بنا دے؛اور ان کی اولاد میں سے بھی ایک مسلمان امت پیدافرمائے ۔یہ آیت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو فاعل بنانے پر قادر ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (ابراہیم:۴۰) ’’اے میرے رب مجھے نماز کا پابند بنادے؛ اور میری اولاد کو بھی۔‘‘ اس آیت میں ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے ہیں کہ وہ مہربان ذات آپ کو نماز کا پابند بنادے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نمازی کو نماز ی بناتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے چمڑے اور اعضاء کے بارے میں خبر دی ہے ؛ [کہ روز قیامت یہ بول پڑیں گے ] اور پھر اس خبر کی تصدیق نقل کی ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿قَالُوْا اَنطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنطَقَ کُلَّ شَیْئٍ ﴾ [فصلت۲۱] ’’وہ کہیں گے: ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمام بولنے والوں کو بلواتا ہے ۔ جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے وہ کام نہیں کرتا جو ان کے لیے اصلح ہو۔یا بندوں کی مصلحت کا خیال نہیں کرتا۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ قائلین تقدیر میں سے ایک جماعت یہی عقیدہ رکھتی ہے۔ ان کا قول ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا خلق و امر اس کی مشیت کے تابع ہے کسی مصلحت پر موقوف نہیں ۔یہ جہمیہ کا عقیدہ ہے۔ اس کے عین برعکس جمہور علماء یہ رائے رکھتے ہیں کہ: اﷲ تعالیٰ بندوں کو اسی بات کا حکم دیتا ہے جس میں ان کی فلاح و بہبود مضمر ہوتی ہے، اور اسی چیز سے روکتا ہے جو باعث فساد ہوتی ہے۔اگر ماموربہ فعل کو انجام دیا گیا تو اس سے تمام لوگوں کے لیے مصلحت حاصل ہوتی ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت بھی مصلحت عامہ کے تحت عمل میں آئی ہے۔ اگر بعض لوگوں کو ان کی معصیت کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہو تو بھی یہ مبنی برحکمت ہے۔بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس عرش کے اوپر ایک کتاب میں لکھ رکھا ہے : ’’میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔‘‘ ایک روایت میں آتا ہے : ’’ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے ۔‘‘[اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے ]۔ ان کا عقیدہ ہے کہ مامور بہ کا بجالانا اور محذورات کا ترک کرنا اس فاعل اور تارک کے لیے مصلحت ہے۔ جب کہ خود نفس امر ‘اور رسولوں کی بعثت میں تمام لوگوں کے لیے عام مصلحت ہے؛ اگرچہ یہ بعض لوگوں کے لیے شر کو بھی متضمن ہو۔یا پھر ان کے لیے ضرر کا سبب ہو۔جیسا کہ گناہ۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تمام افعال پر