کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 340
خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الانعام:۱۲۰ ) ’’وہ ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘]] جمہور اہل سنت والجماعت یہ نہیں کہتے کہ : یہ ظلم و عبث اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں : یہ بندے کا فعل ہے ‘ مگر تخلیق اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جیساکہ انسانی قدرت ‘اس کی سمع و بصارت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے ‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی سمع و بصارت اور قدرت ہر گز نہیں ہے۔[1] فصل: الزام : اﷲ تعالیٰ وہ کام نہیں کرتے جو زیادہ مناسب ہو [اعتراض] :شیعہ کہتے ہیں : ’’ اہل سنت کے نزدیک اﷲ تعالیٰ وہ کام نہیں کرتا جو بندوں کے لیے اصلح ہو، بلکہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو فساد کے موجب ہوں ،مثلاً کفر و عصیان وغیرہ ۔پورے عالم میں ہونے والا ہر قسم کافساد اﷲ تعالیٰ کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔(تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ بیشک بعض اہل سنت اوربعض شیعہ کا نقطۂ نظر یہی ہے ۔مگران کے جمہور اور ائمہ اہل سنت اس کے خلاف ہیں ۔بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جملہ اشیاء کارب اور خالق و مالک ہے۔ اور کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی خلقت ‘اس کے ملک اور قدرت سے باہر نہیں ہوسکتی ۔ اس میں تمام حیوانات کے افعال بھی داخل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ اور مؤمنین [کو بھی پیدا کیا]اور ان کی حرکات، عبادات اور ارادات کو بھی پیداکیا۔منکرین تقدیر اس چیز کو اﷲ تعالیٰ کے اختیاروملکیت سے خارج قرار دیتے ہیں جو خود اس کی ملکیت ہے۔ جیسے :انبیاء، اولیاء ؛ ملائکہ اورمؤمنین کی اطاعت و عبادت ۔ منکرین تقدیر کا عقیدہ یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے عبادت کو پیدا نہیں کیا، وہ بندے کو عبادت پر لگا سکتا ہے نہ اس کے ذہن میں عبادت کا خیال القاء کر سکتا ہے وہ کسی کو ہدایت عطا کرنے پر بھی قادر نہیں ۔اور نہ ہی ان امور کے تارک کو ان کے بجالانے پر قادر کرسکتا ہے۔جب کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی منقول ہے: ﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ﴾ (البقرۃ:۱۲۸)
[1] [[(منہاج السنہ میں اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ : ظلم کا صدور اس شخص سے ہوتا ہے جو اس کا مرتکب ہوتا ہے۔ ظلم کا پیدا کرنے والا(ذاتِ اللہ تعالیٰ) ظالم نہیں ہو جاتا۔ غور کیجیے کہ عبادات، روزہ اور حج وغیرہ کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے، مگر ان کو پیدا کرنے سے وہ عابد، روزہ دار اور حاجی نہیں بن گیا۔اسی طرح بھوک کو بھی اسی نے پیدا کیا، مگر وہ بھوکا نہیں بن گیا۔ تو پھر ظلم کی تخلیق سے وہ ظالم کیوں کر ٹھہرا؟قاعدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی جگہ کسی صفت یا فعل کو پیدا کرتا ہے تو وہ اس فعل یا صفت سے متصف نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو اسے تمام پیدا کردہ اَعراض(جمع عَرض وہ چیز جو بذاتِ خود قائم نہ ہو بلکہ اس کا وجود کسی چیز کے باعث ہو) کے ساتھ موصوف کردیا جاتا۔[دراوی جی ]]۔