کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 339
ہے۔ بغوی رحمہ اللہ نے اہل سنت سے اسی کو نقل کیا ہے اور اسی کو ابوبکر کلاباذی نے ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘ میں صوفیا سے اسی قول کو ذکر کیا ہے۔ امام احمد کے اصحاب میں سے حضرات ائمہ جیسے ابوبکر عبدالعزیز ، ابن حامد اور ابن شاقلا وغیرہ کا بھی یہی قول ہے اور قاضی ابویعلی کا دوسرا قول بھی یہی ہے اور اس کے اکثر اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے جیسے ابی الحسنین وغیرہ۔ جبکہ ان کی ایک جماعت نے دوسرا قول اختیار کیا ہے جن میں ابن عقیل وغیرہ داخل ہیں ۔ جب یہ اشعری وغیرہ کا قول تھا؛ تو وہ بھی سارے اہل سنت کے ساتھ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ : ’’اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے۔‘‘ تو اشعری کو پریہ قول بھی لازم آیا کہ ’’بندوں کے افعال خالق کے افعال ہیں ۔‘‘ کیونکہ اشعری کے نزدیک اللہ کا فعل اس کا مفعول ہے۔ پس اشعری نے بندوں کے افعال کو اللہ کے افعال بنا دیا اور وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ افعال بندوں کے ہیں ۔ اشعری کا مشہور قول یہی ہے۔ مگر مجاز کے طور پر۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یہ بندوں کا کسب ہے۔ اور وہ کسب کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ کسب قدرتِ محدثہ کے محل میں حاصل ہونے والی شے کا نام ہے؛ جو اس محل سے ملی ہو اور امام مالک، شافعی اور احمد کے اصحاب کی ایک جماعت نے اس قول میں ان کی موافقت کی ہے۔ جبکہ اکثر لوگوں نے اس کلام پر طعن کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تین کلام بے حد عجیب ہیں : (۱) طفرۃ النظام (۲) ابو ہاشم کے احوال (۳) اور اشعری کا کسب۔ لوگوں نے اس بارے یہ شعر بھی کہا ہے: ’’کہی جانے والی بے حقیقت باتوں میں سے، جو معقول اور افہام کے قریب ہیں ، چند یہ ہیں : اشعری کے نزدیک کسب، بہشمی کے نزدیک حال اور نظام کا طفرہ (چھلانگ)۔‘‘ جبکہ جملہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ بندوں کے افعال حقیقت میں ان کے افعال ہیں ۔ یہ اشعری کے دو اقوال میں سے ایک ہے؛ اور ان کے جمہور جو خلق اور مخلوق میں فرق کرتے ہیں ، یہ کہتے ہیں : اللہ کی مخلوق اس کے مفعول ہیں اور یہ اس کا نفس فعل اور اس کا وہ فعل خلق نہیں ہیں جو اس کی ایسی صفت جو اس کے ساتھ قائم ہو۔ یہ ان شنیع اقوال میں سے چند اقوال ہیں جن کی طرف جمہور اہل سنت کے اقوال کی روشنی میں سرے سے التفات کیا ہی نہیں جانا چاہیے اور ان کو اشعری وغیرہ مثبتہ جماعت پر ردّ کر دینا چاہیے۔ ظلم کی تفسیر میں اہل سنت والجماعت کے ہاں اختلاف ہے ‘جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وہ فعل جو بندے کی جانب سے ظلم وعبث ہے ‘تو پھر اس کے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے میں کوئی ایسی ممنوع بات بھی نہیں ۔[[ اہل سنت اﷲ تعالیٰ کو افعالِ عباد کا خالق قرار دیتے ہیں ۔ قرآن کریم میں فرمان الٰہی ہے:﴿ہُوَ