کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 338
بلکہ اہل سنت اور شیعہ میں سے جو اس بات کے قائل ہیں کہ وہ ہر شے کا خالق ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بندوں کے افعال کو پیدا کیا ہے؛ اور جملہ اشیاء اور مخلوقات میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو دوسروں کے لیے مضر ہیں انہی میں سے فاعل کا وہ فعل بھی ہے جو ظلم ہے۔ اگرچہ یہ اس فعل کے خالق کی طرف ظلم نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر اس نے بندے کے فعل صوم کو پیدا کیا ہے تو اس سے وہ خود صائم نہیں بن جاتا۔ اسی طرح طواف کے فعل کو پیدا کر کے وہ طائف نہیں ۔ رکوع و سجود کو پیدا کر کے وہ راکع اور ساجد نہیں ۔ جوع و عطش[بھوک و پیاس] کو پیدا کر کے وہ بھوکا پیاسا نہیں ۔ پس رب تعالیٰ جب کسی محل میں کوئی صفت یا فعل پیدا فرماتا ہے تو اس سے وہ خود اس صفت یا فعل والا نہیں بن جاتا۔ کیونکہ اگر یہی بات ہوتی تو وہ جملہ اعراض کے ساتھ متصف ہوتا۔
لیکن افسوس کہ یہاں آ کر جہمیہ معتزلہ اور ان کے پیرو کار شیعہ پھسل گئے جو اس قول کے قائل ہیں کہ اللہ کا کلام وہی ہے جسے وہ غیر میں پیدا کرتا ہے۔ اور اس کا فعل وہی ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہو۔ ان کے نزدیک قول و فعل میں سے کچھ بھی اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا اپنے فرشتوں سے، اپنے بندوں سے اور جنابِ موسیٰ سے کلام اور اس کا بندوں پر نازل کیا جانے والا کلام یہ غیر میں پیدا کیا ہوا ہے ناکہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔
ان کی بات کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی صفت کسی محل کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے تو اب اس کا حکم اسی محل کا ہے ناکہ غیر محل کا ۔پس جب اس نے ایک حرکت کو ایک محل میں پیدا کیا؛ تو اس حرکت کے ساتھ متحرک وہی محل ہو گا؛ نہ کہ اس حرکت کا خالق اس کے ساتھ متحرک ہو گا۔ اسی طرح اگر اس نے کسی محل میں کوئی رنگ، بو، علم یا قدرت پیدا کی ہے تو رنگ و بو والا یا علم و قدرت والا، وہ محل ہو گا نہ کہ ان چیزوں کا خالق۔ اسی طرح اگر اللہ نے ایک محل میں ایک کلام کو پیدا کیا ہے تو اس کلام والا، وہ محل ہو گا ناکہ اس کلام کا خالق متکلم ہو گا۔ لہٰذا اگر شجرہ سے آنے والا یہ کلام کہ ’’اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ‘‘ (طہ: ۱۴)
’’بیشک میں اللہ ہوں ۔‘‘
جسے موسیٰ علیہ السلام نے سنا تھا، اسے اللہ نے اس درخت میں پیدا کیا تھا تو اب متکلم یہ شجرہ ٹھہرا نہ کہ اس کلام کا خالق۔
معتزلہ اور ان کے پیروکار شیعہ حضرات نے اس پر افعال کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: جیسا کہ وہ ذات اپنے عدل و احسان کے ساتھ عادل اور محسن ہے جو غیر کے ساتھ قائم ہے، اسی طرح وہ ایسے کلام کے ساتھ متکلم بھی ہے جو غیر کے ساتھ قائم ہے اور یہ ان کا اس کے خلاف حجت ہے افعال کو مانتا ہے جیسے اشعری وغیرہ۔کیونکہ اس کے نزدیک ایسا کوئی فعل نہیں ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ بلکہ وہ کہتا ہے: خلق ہی مخلوق ہے جو اس کا غیر نہیں ہے۔ یہ امام مالک، امام احمد اور امام شافعی کے اصحاب میں سے ایک جماعت کا قول ہے اور قاضی ابویعلی کا بھی پہلا قول یہی ہے۔ لیکن جمہور یہ کہتے ہیں کہ خلق یہ مخلوق کا غیر ہے اور یہی حنفیہ کا مذہب