کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 337
ہے۔پھر یہ اپنی طرف سے ان لوگوں پر حکم لگانے لگ جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر کسی چیز کو واجب نہیں ٹھہراتے؛ اور کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ اخلال بالواجب کا ارتکاب کرتا ہے؛حالانکہ یہ مذہب کے نقل کرنے میں تلبیس و تحریف والا کام ہے ۔ان لوگوں کے عقیدہ کی بنیاد قدریہ کا عقیدہ ہے جس میں وہ خلق افعال میں اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے مشابہ قرار دیتے ہیں ۔ پس پھر اس میں جو چیز اچھی لگے ‘ اسے بندے کا حسن قراردیتے ہیں ‘ اور جو چیز بندے سے قبیح تصور ہو وہ اللہ کے لیے بھی قبیح سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اس طرح کی مثال بیان کرنا باطل ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ کے افعال معلَّل بالحِکَم ہیں ؟: [اعتراض]:شیعہ کہتے ہیں :’’اہل سنت کہتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ کسی غرض کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتا۔بلکہ ان کے یہاں تمام افعال باری تعالیٰ کسی غرض و حکمت پر مبنی نہیں ہوتے؛ اور نہ ہی ان میں سرے سے کوئی حکمت پائی جاتی ہے۔‘‘ [جواب]: اﷲ تعالیٰ کے افعال و احکام کے معلَّل بالحکمت ہونے میں اہل سنت کے دو قول ہیں ۔اور مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب میں اس مسئلہ میں نزاع پایا جاتاہے۔ اکثر علماء رحمہم اللہ فقہیات پر تبصرہ کرتے وقت تعلیل احکام کو تسلیم کرتے ہیں ۔جبکہ علماء اصول میں سے بھی بعض بصراحت تعلیل کے معترف ہیں اور بعض اس کا انکار کرتے ہیں ۔ جمہوراہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کے افعال و احکام میں حکمت اور تعلیل کو ثابت مانتے ہیں ۔ رہا لفظ غرض تو معتزلہ اس کی تصریح کرتے ہیں اور وہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت کے قائل ہیں ۔ رہے فقہاء وغیرہ تو ان کے نزدیک یہ لفظ ایک گونہ نقص کو بتلاتا ہے۔ یا تو ظلم کو یا پھر حاجت کو۔ کیونکہ اکثر لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں کو فلاں سے فلاں غرض ہے یا اس نے فلاں غرض سے یہ کام کیا ہے تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے یہ کام اپنی مذموم خواہش و ارادہ سے کیا ہے۔ جبکہ رب تعالیٰ اس سے بری ہے۔ سو اہل سنت نے حکمت، رحمت اور ارادہ وغیرہ کی تعبیر اس لفظ سے کی جو نص میں آتا ہے اور تقدیر کوماننے والے معتزلہ بھی غرض کے لفظ کی تعبیر کرتے ہیں کہ وہ ایک غرض سے یہ کام کرتا ہے۔ جیسا کہ سنت کی منسوب ایک جماعت کے کلام میں بھی یہ بات اور تعبیر پائی جاتی ہے۔ شیعہ کا یہ کہنا کہ:’’ اہل سنت کے نزدیک اﷲ ظلم و عبث کا مرتکب ہو سکتا ہے۔‘‘ [اگر اس سے مراد بذات خود[اس فعل کا ]ظلم وعبث ہونا ہے ‘ تو پھر بھلے رافضی نے یہ جملہ بطور الزام کہا ہو؛ یہ فقط بہتان اور من گھڑت ہے] ۔اہل اسلام کوئی بھی ایسا نہیں جو کہتا ہو کہ اﷲ تعالیٰ ظلم و عبث کا مرتکب ہو سکتا ہے۔[ ایسی بات کسی مسلمان کے منہ سے نہیں نکل سکتی]۔ تَعَالٰی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا]