کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 334
متفق ہیں کہ وہ اپنے انبیاء اور اپنے نیک بندوں کو عذاب نہیں دیتا بلکہ ان کو جنت میں داخل کرتا ہے جیسے کہ اس نے خبر دی ہے۔
عقلی حسن و قبیح کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ :
لیکن دو مسئلوں میں ان کا اختلاف ہے:
ایک یہ کہ کیا بندے اپنے عقلوں کے ذریعے بعض افعال کے حسن کو سمجھتے ہیں ؟(یعنی بغیر وحی کے محض عقل سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کام اچھا ہے اور یہ نہیں )اور کیا وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے فعل کے ساتھ متصف ہیں ؟اور وہ بعض افعال کے قبح کو سمجھتے ہیں ؟اور یہ بات سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس قبح سے منزہ اور پاک ہیں تو یہ دو معروف قول ہیں :
قول اول:.... عقل کے ذریعے کسی فعل کا حسن اور قبح نہیں معلوم کیا جا سکتا۔ رہا اللہ کے حق میں تو اللہ کی ذات سے قبیح (کا صادر ہونا)ممتنع لذاتہ ہے ،رہا بندوں کے حق میں تو حسن اور قبح تو صرف شریعت کے ذریعے ثابت ہو سکتاہے اور یہ امام اشعری اور اس کے اتباع کا قول ہے اور بہت سے ان فقہاء کا جو امام شافعی اور امام احمد کے اتباع میں سے ہیں اور جب حسن اور قبیح کی تفسیر مناسب اورمنافی (لف نشر مرتب )کے ساتھ کیا جائے تو پھر اس کے بارے میں ان لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے اس بات میں کہ یہ عقل سے معلوم کیا جا سکتا ہے اس طرح کہ ان کے اس بات میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب حسن اور قبیح سے کسی شے کا صفتِ کمال ہونا یا صفتِ نقصان ہونا مراد لیا جائے تو یہ بھی عقل سے معلوم کیا جا سکتا ہے ۔
قول دوم: ....یہ ہے کہ عقل کے ذریعے بہت سے افعال کا حسن معلوم کیا جا سکتا ہے اور قبح بھی اللہ کے حق میں اور بندوں کے حق میں بھی اور یہ باوجود یکہ معتزلہ کا قول ہے تو یہ کرامیہ اور دوسرے طوائف کا بھی قول ہے ،جمہورِ حنفیہ اور امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کے بہت سے اصحاب کا بھی ہے جیسے ابو بکر ابہری اور اس کے علاوہ امام مالک کے بعض اصحاب جیسے ابو الحسن تمیمی ، امام احمد کے اصحاب میں سے ابو الخطاب الکلوذانی ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول اکثر اہل علم کاہے۔ ابو علی بن ابی ہریرہ اور ابو بکرقفال اور اس کے علاوہ دیگر اصحاب شافعی اور ائمہ محدثین کا بھی یہ قول ہے۔ پہلے قول کو اہل بدعت کا قول سمجھا گیا ہے جس طرح کہ اس بات کو ذکر کیا ہے ابو نصر سجزی نے اپنے اس معروف رسالے میں کیا ہے؛ جو سنت کے بیان میں لکھا گیا ہے اور اس کے صاحب ابو القاسم سعد بن علی زنجانی نے اپنے اس شرح قصیدہ میں ذکر کیا ہے جو کہ عقیدہ میں معروف ہے ۔
اس مسئلے میں ایک تیسرا قول بھی ہے جس کو امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی آخری تصنیف میں اختیار کیا ہے اور یہ قول بندوں کے افعال کی تحسین اور تقبیح عقل سے معلوم ہونے کا قول ہے نہ کہ اللہ کے افعال میں ۔