کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 333
فصل: ابن مطہر کے خیالات اور ان پر رد کا تسلسل عنوا ن :روافض کا عقیدہ کہ اہل سنت نے اللہ تعالیٰ کی ذات پرفعلِ قبیح اور اخلال بالواجب کو جائز قرار دیتے ہیں ؛اوراس پر ردّ: ’’رہا رافضی کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اہل سنت نے فعلِ قبیح کو اور واجب میں خلل اور اس میں کوتاہی کرنے کو جائز اور ممکن سمجھا۔‘‘ تو انہیں جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان گروہوں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں پایا جاتا ؛ جو یہ کہتاہو کہ اللہ تعالیٰ قبیح کا فعل کرتا ہے یا کسی اخلال بالواجب کا ارتکاب کرتا ہے اور کوتاہی واقع ہوتی ہے۔ لیکن معتزلہ اور شیعہ میں سے ان کے موافقینجو تقدیر کے منکر ہیں ؛وہ اللہ تعالیٰ پر ان افعال کو واجب سمجھتے ہیں جن کی جنس میں سے بعض افعال کو وہ بندوں پر واجب سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر ان افعال کو حرام سمجھتے ہیں جن کو بندوں پر حرام سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے مخلوق پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے ایک شریعت کو واضح کرتے ہیں پس یہ افعال میں تشبیہ کے قائل ہیں ۔ وہ لوگ جو اہل سنت اور روافض میں سے تقدیرکو مانتے ہیں ؛تو وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے افعال کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جس طرح کہ اس کو اس کی ذات و صفات کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ پس اس کی ذات کے مثل کوئی بھی شے نہیں نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں ۔ اور ہم میں سے کسی ایک پر جو امور واجب ہیں ان کے مثل اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ اور ایسے ہی ہم میں سے کسی ایک پر جو امور حرام ہیں تو اس کی مثل اللہ پر تحریم نہیں ثابت کی جا سکتی ہے۔ اور جو امور ہم سے قبیح ہیں (ہم سے ان کا صادر ہونا )وہ اللہ کی ذات سے قبیح ہیں اور جو اللہ کی ذات سے حسن ہیں وہ ہم میں سے کسی ایک فرد سے حسن نہیں کہلاتے اور ہم میں سے کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی شے کی ایجاب یا اس کی تحریم کر دے۔ پس یہ ان کے اس قول کا اثر ہے جس پر سبھی متفق ہیں ۔ اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب اس کے عباد کے ساتھ کسی شے کا وعدہ کریں تو اس کے وعدہ کے اعتبار سے اس کا وقوع واجب ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس اپنے اس خبر میں صادق ہیں کہ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) وعدے کی مخالفت نہیں کرتا۔ اور وہ سب کے سب اس بات پر