کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 332
بند ہو جائے گا جس پر تم چلے ہو۔
معتزلہ اور روافض سے یہ بھی کہا کہ:’’ تم اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے افعال کو علل حادثہ کے ساتھ معلول مانتے ہو۔پس تمہیں (الزاماً)کہا جائے گا : کیا تم حوادث کے لیے بھی کسی سبب ِ حادث کو ضروری سمجھتے ہو یا نہیں ؟ اگر تم کہو :ہاں ؛ تو پھر حوادث کا تسلسل لازم آئے گا اور جو بات تم نے ذکر کی ہے وہ باطل ہو جائے گی۔
اگر تم اس کو ضروری نہیں سمجھتے ؛ تو تم سے(الزاماً ) کہا جائے گا کہ اس طرح تو پھراس کے لیے کوئی ایسی غایت ثابت نہیں ہوگی جس کے بعد کوئی حادث وجود میں آئے۔ معقول بات تو یہ ہے کہ وہ فاعل جو وجود دینے والا ہے ،اس کے فعل کے لیے کسی سبب اور کسی غایت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پس جب تمکہتے ہو کہ اس کے احداث کے لیے کوئی سبب نہیں ؛ توہم پوچھتے ہیں کہ: کیا پھر اس کے فعل کے لیے کوئی غایت ِ مطلوبہ بھی نہیں ؟ ۔
اگر تم کہو کہ کوئی ایسا فاعل معقول نہیں جو حکمت کا ارادہ نہ کرے۔ اور اگر کوئی ایسا فاعل ہے تو وہ عبث (ٖفضول اور بے فائدہ) میں مبتلا ہے ۔تو جواب یہ ہے کہ ہمیں بھی کوئی ایسافاعل معلوم نہیں جو بغیر کسی سببِ حادث کے کسی شے کو وجود دے ۔بلکہ یہ تو عقلاًبھی اس کی بہ نسبت زیادہ سخت ممتنعہے (یعنی امتناع کے اعتبار سے زیادہ اشد ہے اور زیادہ ممتنع ہے )پس تم نے کیوں غایت کو ثابت کیا اور سببِ حادث کی نفی کر دی ۔
تمہیں یہ بھی (الزاما )کہا جا سکتا ہے کہ جو فاعل معقول ہے وہ توکسی ایسے غایت اور غرض کے لیے فعل کرتا ہے جو اس کی نفع کی طرف لوٹتا ہے (یعنی جس میں اس کا فائدہ ہوتا ہے )اور رہا وہ فاعل جو کسی ایسے غایت اور غرض کے لیے فعل (کام )کرتا ہے جو غیر کے (نفع کی طرف )راجع ہو تویہ غیر معقول ہے۔
جب یہ ان شیعوں کا قول ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے بارے میں معتزلی عقائد کی اتباع کرتے ہیں ؛ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ محض مشیت کی وجہ سے فعل کرتا ہے بغیر کسی علت کے؛ اور یہ اس قول کی بہ نسبت بہتر ہے اس لیے کہ یہ تسلسل سے سالم اور محفوظ ہے۔ اور اس بات سے بھی یہ اس میں سلامتی پائی جاتی ہے کہ اس کا فعل کسی ایسی حکمت کے لیے ہو جو اس کی ذات سے منفصل ہو۔ اورمعتزلہ تو تسلسل کے امتناع کو تسلیم کرتے ہیں ۔ پس یہ بات معلوم ہو گئی کہ ان لوگوں کا عقیدہ ان پر نکیر کرنے والوں کے عقیدہ سے زیادہ بہتر ہے ۔
رہا وہ شخص جو تعلیل کا قائل ہے اہل سنت و اہل حدیث میں سے جیسے ماقبل میں گزراوہ ان دونوں امور سے سالم رہا اور میں نے تعلیل کے مسئلہ میں ایک مستقل تصنیف لکھی ہے اور جب مجھ سے مسئلہ تعلیل کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے اس کے جواب میں ایک مستقل تصنیف لکھی ہے اور یہ اس کو بیان کرنے کی جگہ نہیں مقصود تو یہاں اس بات پر تنبیہ ہے کہ اہل سنت کے اقوال شیعہ اور روافض کے اقوال سے بہتر ہے اور یہ بات کہ اگر بعض اہل سنت کا کوئی قول ضعیف ہے تو شیعوں اور روافض کا قول ان سے زیادہ ضعیف ہے۔