کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 331
صرف حادث ہی بن سکتا ہے اس کے بارے میں یہ امر ممتنع ہے کہ وہ زمانِ واحد میں مجتمع ہو چہ جائے کہ اس کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء ازلی بنے بلکہ وہ توشیئاً فشیئاً موجود ہوتا ہے ۔ رہا وہ فعل جو صرف قدیم ہی بنتا ہے تو یہ تو اولاً ممتنع لذاتہ ہے اس لیے کہ فعل اور مفعولِ معین جو کہ فاعل کے ساتھ مقارن ہو وہ ممتنع ہے پس حوادث میں سے کوئی شے بھی حادث نہیں ہوگا کیونکہ اگر فعلِ قدیم کوفعلِ تام فرض کر لیا جائے تو اس کے ساتھ اس کا مفعول لازم ہے اور اس موضوع پرہم نے تفصیلی کلام اس مقام کے علاوہ بیان کر دیا ہے اور ایک ایک کر کے ان میں سے ہر ایک کے اختلاف کو بیان کر دیا ہے اور یہاں تو مقصود تعلیل کے اصل مسئلہ پر بنیادپر تنبیہ کرنا ہے اس لیے کہ اس بدعتی نے اہل سنت کے اوپر تشنیع اور زبان درازی کی ہے پس اس نے ایسے مسائل ذکر کیے ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت اس نے ذکر کی ہے اور نہ ادلہ ذکر کیے ہیں اور اس کو ایسے طریقے پر وہ نقل کرتا ہے جو ایک فاسد طریقہ ہے وہ بات جو وہ اہل سنت سے نقل کرتا ہے وہ خطا اور جھوٹ ہے یا ان کے اوپر بہتان ہے یا ان میں سے اکثر کے اوپر بہتان ہے اور یہ جو بات فرض کی گئی ہے کہ وہ کلام ان میں سے بعض کے اوپر صادق ہے تو اُن کا قول اس مسئلہ میں اُس کے قول سے بہتر ہے اس لیے کہ اس کی اکثر زبان درازی تو اشعریہ اور ان کے موافقین پر ہے اورہر اس شخص کے نزدیک اشعریہ ،معتزلہ اور روافض سے بہتر ہیں جو کچھ دیانت اور عقل رکھتا ہے اور اپنے اقوال میں اللہ سے ڈرتا ہے ۔ اگر کہا جائے کہ ان کے کلام میں اور ان کے موافقین کے کلام میں جو کہ آئمہ اربعہ کے اصحاب میں سے ہیں ،بعض باتیں وہ ہیں جو بہت ضعیف ہیں تو ان ضعیف باتوں میں سے اکثر وہی ہیں جو انہوں نے معتزلہ سے حاصل کی ہیں پس اس باب میں خطاء اور غلطی کی بنیاد وہی ہے اور ان میں سے بعض اخطاء تو وہ ہیں جن میں وہ پڑ گئے اس وجہ سے کہ معتزلہ نے خطاء میں افراط(حد سے تجاوز) اختیار کیا تو انہوں نے اس کے مقابلے میں اُن کے رد کے لیے افراط اختیار کیا جیسے کہ وہ لشکر جو کفار کے ساتھ قتال میں مصروف ہو بسا اوقات اس سے افراط اور حد سے تجاوز پایا جاتا ہے اور وہ ان کفار کے مقابلے کے لیے اور ان کے شان و شوکت کو توڑنے کی غرض سے ہوتا ہے اور یہ امر اپنے مقام پر تفصیل سے بیان ہو چکا ہے ۔ اشاعرہ اور ان کے موافقین کا معتزلہ اور روافض پر رد : ان لوگوں نے معتزلہ اور روافض سے کہا ہے : جب یہ دلیل تمہاری سب سیبنیادی دلیل ہے تو تم پر دہری فلاسفہ نے زبان درازی کی ؛جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال۔ اور یہ دلیل درحقیقت حدوثِ عالم کے منافی ہے ،اس کو مستلزم نہیں ۔ اس لیے کہ جب حادث کے لیے کسی سببِ حادث کا ہونا ضروری ہے اور یہ دلیل بلا کسی سبب کے حادث کے وجود کو مستلزم ہے تو لازم آیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شے کو پیدا نہ کیا ہو العیاذ باللہ من ذالک۔اور اگر ہم ممکن کے دو طرفین میں سے کسی ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دینا جائز سمجھیں تو پھر تو اس صانع کے اثبات کا راستہ ہی