کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 330
گیا اور انہوں نے کہا کہ قادر کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ وہ دو مثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر کسی مرجح کے ترجیح دے جس طرح کہ اُس شخص کا حال ہے جو بھوکا ہو کہ وہ دو روٹیوں میں سے کسی ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دے کر کھا لیتا ہے اسی طرح جو شخص بھاگنے والا ہے وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور جمہورِ عقلاء نے توکہا کہ ہم بداہۃ یہ بات جانتے ہیں کہ اگر دو مثلین میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے لیے کوئی مرجحِ تام نہ پایا جائے تو رجحان ممتنع ہوتا ہے ورنہ تو من کل وجہ تصاویر کے ساتھ رجحان ممتنع ہے۔ ترجیح بلا مرجح کا شیعہ اور معتزلہ کا عقیدہ: معتزلہ اور شیعوں کا ترجیح بلا مرجح کو جائز قرار دینے نے فلاسفہ کو عالم کے قدم کے قول پر قدرت دے دی فلاسفہ نے اس کو عالم کے قدم میں حجت قرار دیا پس انہوں نے کہا کہ بغیر کسی سببِ حادث کے توحدوث ممتنع ہے پس لازم آئے گا کہ وہ قدیم ہو اور کسی موجب بالذات سے صادر ہو اور یہ کئی اعتبارات سے معتزلہ کی بہ نسبت زیادہ گمراہ ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کے اس قول کا اس بات کو مستلزم ہونا کہ کوئی بھی شے حادث نہ ہو ۔ اس اعتبار سے کہ ان کا قول یہ اس بات کو متضمن ہے کہ ممکنا ت کے لیے کوئی بھی فاعل نہ ہو اس لیے کہ فعل بغیر احداث کے غیر محدود ہے ۔ اس جہت سے بھی کہ ان کے قول میں اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات میں نقائص کے ساتھ موصوف کرنالازم آتا ہے ایسے ہی اس کی صفات اورافعال میں جن کو بیان کرنا ایک طویل کلام کا تقاضہ کرتا ہے ۔ اس جہت سے بھی کہ عالم بداہۃً اور ضرورتاً حوادث کو مستلزم ہے اس لیے کہ حوادث عالم میں نظر آتے ہیں مشاہد ہیں ،پس یا تو یہ وہ اس کے لیے لازم ہوں گے یا اس کے اندر حادث ہوں گے یا موجب بالذات جو کہ اپنے معلول کو مستلزم ہے اس سے کوئی بھی شے حادث نہیں ہوتی پس لازم آتا ہے کہ حواث کے لیے کسی بھی حالت میں کوئی فاعل نہ ہو اور یہ ایسے حوادث کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں جو غیر متناہی ہوں جیسے کہ ان کی اس بات میں جمہورِ محدثین نے موافقت کی ہے اور ایسی صورت میں یہ بات ممتنع نہیں کہ عالم میں سے ہر شے حادث بنے اور اللہ تعالیٰ تو ازل سے صفاتِ کلام کے ساتھ موصوف ہیں ،ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں فعل پر قادر ہیں فعل اورر مفعول میں سے کوئی بھی شے نہیں ہے مگر وہ حادث ہی ہے اس لیے کہ ہر فعلِ معین کے بارے میں یہ ضروری ہے کہ وہ مسبوق بالعدم ہو ورنہ تو اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ فاعل موجب بالذات ہے تو اس کے ساتھ اس کا مفعول لازم ہے اور اس سے کوئی بھی شے حادث نہیں ہوگی اور یہ حس اور مشاہدہ کے ساتھ مکابرہ ہے۔ اگر اس کو موجب بالذات نہ فرض کیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ وہ موجب بالذات نہیں تو پھر اس کے مفعولات میں سے کوئی بھی شے اس کے ساتھ مقارن نہیں ہوگی اگرچہ وہ دائم الفعل ہے اس لیے کہ نوعِ فعل اس کے ذات کے لوازمات میں سے ہے ،رہے افعال اور مفعولاتِ معینہ تووہ اس کی ذات کے لوازم نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے ماقبل کے ساتھ معلق اور متصل ہے کیونکہ زمانِ واحد میں حوادث کا اجتماع ممتنع ہے پس وہ فعل جو