کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 329
ہے لہٰذا جب اس ایک ذات کی قدرت وہ دوسرے کی قدرت ہی سے حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کی قدرت صرف اس کی قدرت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے تو یہ دور ممتنع ہوا۔ جس طرح کہ اگر اس ایک کی ذات کا حصول اور وجود دوسرے پر موقوف ہوتا اور دوسرے کی ذات کا حصول اور وجود پہلے کی ذات پر موقوف ہوتا تو یہ بھی ممتنع دور کہلاتا کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے فاعل ٹھہرا بخلاف اس صورت کے کہ ایک دوسرے کے لیے لازم ہو یا اس کے لیے شرط ہو اور فاعل ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ذات ہو تو بے شک یہ صورت جائز ہے جس طرح کہ باپ اور بیٹا ہونے میں ذکر کر دیا گیا ہے اور ایسے ہی وہ ایک ذات جو دو ضدین میں سے ایک کا ارادہ کرتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسرے ضد کا ارادہ نہ کرے تو بے شک یہ اس کے قادر ہونے میں قادح نہیں ،رہی یہ صورت کہ وہ اس وقت تک قادر ہی نہیں ہوتا جب تک کہ دوسرا اس کی مدد کرے یا یہ کہ اس کے اور مقدور کے درمیان تخلیہ کر دے یعنی حائل نہ بنے اور فعل سے اسے نہ روکے تو بے شک یہ اس کے اکیلے قادر ہونے میں قاطع ہے اوریہ تمام معانی اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ پر تفصیل سے بیان کر دئے گئے ہیں لیکن چونکہ اکثر اس جیسے مشکل مواضع میں دور اور تسلسل کا کلام ذکر کر دیا جاتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات اور افعال کے دلائل سے متعلق ہے اور لوگوں میں سے بہت سے بسا اوقات ان فروق کی طرف صحیح اور سیدھی راہ نہیں پاتے جو کہ امورِ متشابہ کے درمیان ثابت ہیں ۔
جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی صحیح دلیل کو غلط گمان کیا جاتا ہے یا ایسی شے کو دلیل سمجھا جاتا ہے جو بالکل دلیل ہی نہیں ہوتا یا وہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے اور توقف اختیار کر لیتا ہے اور حقیقی حال اس پرمشتبہ ہو جاتا ہے یا کسی ایسے طویل اور مشکل کلام کو سنتا ہے جس کے معنی کو وہ نہیں سمجھتا یا وہ ایسے امور میں کلام کرتا ہے جن کی حقیقت ہی متصور نہیں تو ہم نے یہاں پر ایک لطیف طریقے سے اس بات پر تنبیہ کر دی کیونکہ یہ مقام اس کی تفصیل بیان کرنے کا نہیں ۔
[شیعہ اورمعتزلہ کی خطاؤوں کا بیان]
ان اخطاء کا بیان جن میں معتزلہ اور شیعہ پڑ گئے ہیں جن کا سبب ان کا یہ گمان ہے کہ تسلسل ایک ہی نوع ہے .
اس وجہ سے بہت سے لوگ بہت سے بہت ساری غلطیوں کا شکار ہوگئے ۔اور جنہو ں نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ آخرت میں نہیں دیکھے جا سکتے جو کہ معتزلہ اور شیعوں کا مسلک ہے ان کو اس مقصد نے اس گمان میں ڈال دیا کہ تسلسل نوعِ واحد ہے پس اس کی وجہ سے انہوں نے یہ بات بھی اپنے ذمے لے لی کہ خالق تعالیٰ متکلم نہیں تھا اور نہ متصرف بالذات تھا یہاں تک کہ اس نے ایسا کلام پیدا فرما دیا جو اس کی ذات سے منفصل اور جدا تھا اور انہوں نے اللہ کے کلام کے خلق کو آسمانوں اور زمینوں کے خلق کی طرح قرار دیا پس جب لوگوں نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ حادث کے لیے تو کسی سببِ حادث کا ہونا ضروری ہے تو پھر یہ مکابرہ (ہٹ دھرمی )میں پڑ