کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 328
اکیلئے ہونا دوسرے کی طرف احتیاج کے بغیر )اس بات کو واجب کر دیتا ہے کہ دوسرا اس کے ساتھ اس میں شریک نہیں پس جب دوسرا مستقل ہے تو یہ بیک دوامور کو مستلزم ہے ایک یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے اس پورے عالم کو (دوسرے کے اشتراک کے بغیر )وجود دیا ہے دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک پورے عالم کو (دوسرے کی شرکت کے بغیر) وجود نہیں دیا اور یہ جمع بین النقیضین ہے ۔
رہی دوسری صورت کہ وہ آپس میں باہم مدد گار ہوں تو اگر کہا جائے کہ ان میں سے ہر ایک مستقل بذاتہ قدرت رکھتا ہے کہ اس حال میں کہ دوسرا بھی قدرت رکھتا ہے تو قدرت کا دو نقیضین کے اجتماع پر دو نقیضین پر اجتماع لازم آئے گا اور یہ ممتنع ہے اس لیے کہ ایک کا مستقل قدرت کی حالت میں دوسرے کی مستقلاً قدرت ممتنع ہے اور یہ دونوں حالتِ واحدہ میں مستقلاً قادر نہیں ہوسکتے اس لیے کہ یہ تو دو دفعہ حالتِ واحدہ میں اس کے پائے جانے کاتقاضا کرتا ہے لیکن یہ بات ممکن ہے کہ اس کو فرض کر لیا جائے جب کہ دوسرا فاعل نہ ہو اور اس طرح بالعکس یعنی پہلا فاعل ہو دوسرا نہ ہو،دوسرا فاعل ہو پہلا نہ ہو پس اس میں ہر ایک کی قدرت دوسرے کے فعل کے عدم کے ساتھ مشروط ہے پس ان میں سے ہر ایک کے فعل کی حالت میں دوسرے کی قدرت ممتنع ہوئی ۔
اگر کہا جائے کہ دونوں متعاونین یعنی مددگار مستقلاً حالتِ واحدہ میں قادر نہیں ہوتے جس طرح کہ مخلوقات میں سے دو مددگار ہوتے ہیں تو یہ بات بھی باطل ہے جیسے طرح کہ عنقریب آئے گا اور مقصود تو یہ ہے کہ اگر وہ دونوں مستقل بذاتہ قادر ہیں تو یہ بات ممکن ہے کہ یہ ایک ذات اپنے مقدور کو کرے اور یہ دوسرا اپنے مقدور کو نہ کرے پس نقیضین کا اجتماع لازم آئے گا مثلاً ایک بارش برسانا چاہے گا اور وہ اس کو وجود دے گا اور دوسرا اس کے عدم کو وجود دے گا ورنہ تو لازم آئے گا کہ ایک کی قدرت دوسرے سے مشروط ہو اور یہ تو ممتنع ہے اور یہ بات کہ ایک دوسرے کے مراد کی ضد کا ارادہ کرے پس یہ ایک اللہ کسی جسم کی تخلیق کا ارادہ کرے گا اور دوسرا اس کے تسکین کا اور دو ضدین کا اجتماع تو ممکن ہے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کے لیے فعل کا ارادہ دوسرے کی موافقت کے بغیر ممکن نہ ہو تو وہ اکیلے عاجز کہلائے گا اور وہ قادر نہیں ہوگا مگر دوسرے کے موافقت کے ذریعے ۔
اسی طرح اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی مستقلاً قادر نہیں بلکہ وہ صرف دوسرے کی معاونت اور قدر ت کے ذریعے معاون بنتا ہے جیسے کہ مخلوقات میں ہوتا ہے یا یہ کہا جائے کہ ان میں سے ہر ایک مستقلاً فعل کے کرنے پر قادر ہے دوسرے کے تخلیہ کی شرط پر یعنی کہ وہ اس کے اور فعل کے درمیان حائل بننے سے ہٹ جائے ح،ائل نہ بنے اور ان تمام صورتوں میں لازم آئے گا کہ ایک کی قدرت دوسرے کی اقدار یعنی تمکین سے حاصل ہو اور یہ امرممتنع ہے اس لیے کہ یہ بات تو فاعلوں اور مؤثرات میں دور کی جنس میں سے ہوا اس لیے کہ بے شک جس امر کے ذریعے فاعل کی فاعلیت تام ہوتی ہے اس میں دور ممتنع ہوتا ہے جس طرح کہ خود ذاتِ فاعل میں دور ممتنع ہے اور قدرت تو فعل کے اندر شرط ہے پس فاعل صرف قدرت ہی کے ذریعے فاعل بنتا