کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 327
محدث ذوات کا افتقار جو کہ بذاتِ خود ممکن ہو یہ کسی ایک کے افتقار سے زیادہ ہے جس طرح کہ دو کا عدم ایک کے عدم سے زیادہ اور بڑھ کر ہے پس اس میں تسلسل اور کثرت اس کو افتقار اور حاجت سے نہیں نکالتا بلکہ حاجت اور افتقار کے اعتبا ر سے اس میں اضافہ کرتا ہے پس اگر حوادثِ معدومہ اور ممکنہ کا ایک غیر متناہی سلسلہ فرض کر لیا جائے خواہ بعض کوبعض کے لیے معلول مانا جائے یانہ مانا جائے تو ان میں کوئی شے بھی نہیں پائے جائے گی مگر صرف ایسے فاعل کے ذریعے جو ان کے لیے صانع ہو اور ان کی اُس طبعیت سے خارج ہو جو اُن کے آپس میں مشترک ہے اور افتقار اور احتیاج کو مستلزم ہے پس اس کا فاعل معدوم نہیں ہوگا ،نہ محدث ہوگا اور نہ ایسا ممکن ہوگاجو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرے بلکہ وہ تو صرف اور صرف موجود بنفسہ ہوگا واجب الوجود ہوگا اور عدم کو قبول نہیں کرے گا اور قدیم ہوگا نہ کہ حادث اس لیے کہ یقیناً ہر وہ شے اس طرح نہ ہو تو بتحقیق وہ ایسی ذات کی طرف محتاج ہوتی ہے جو اسے پیدا کرے ورنہ وہ موجود ہی نہیں ہوتی۔ رہا آثار میں تسلسل جیسے کہ ایک حادث کا دوسرے حادث کے بعد وجود تو اس میں تین گذشتہ اقوال ہیں :یعنی ماضی اور مستقبل دونوں میں اس کا ممنوع ہونا جیسے جہم اور ابوالہزیل علاف کا قول یا صرف زمانہ ماضی میں اس کا ممنوع ہونا جیسے بہت سے اہل کلام کا قول یا پھر ماضی اور مستقبل دونوں میں اس کا جواز اور امکان۔ جیسے کہ اکثر محدثین اور فلاسفہ کا قول ہے اور یہ اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ دورکی اقسام : ایک دورِ قبلی کہلاتا ہے اور دوسرا اقترانی پہلے دور کا مطلب یہ ہے کہ یہ امر نہیں پایا جائے گا مگر اِس دوسرے کے بعد اوریہ(دوسرا) نہیں پایا جائے گا مگر پہلے کے بعد اور یہ تو باتفاق عقلاء ممتنع ہے اور رہا دورِ اقترانی جیسے کہ ان متلازمین کے درمیان دور جو زمانۂ واحد میں پائے جاتے ہیں جیسے کہ باپ ہونے اور بیٹے ہونے کی نسبت اور اس طرح دو شیئین میں سے ایک کا دوسرے سے اوپر ہونا اور دوسرے کا نیچے ہونا اور دو شیئین میں ایک کا دائیں طرف اور دوسرے کا بائیں طرف ہونا اور ایسے ہی دیگر امور متلازمہ جو صرف معاً(ایک ہی وقت میں )پائے جاتے ہیں تو یہ دور ممکن ہے اور جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے لیے فاعل یا فاعل کا تمام نہیں ہوتا بلکہ فاعل ان دونوں کا کوئی غیر ہوتا ہے تو یہ بات جائز اور ممکن ہے ،رہا یہ کہ جب ان میں سے ایک دوسرے کے لیے فاعل ہو یا اس کے فاعلیت کے تمام میں سے ہو یعنی اس کا تتمہ ہو تو پھر یہ دور ممتنع ہو جاتا ہے۔ دو خداؤں کے وجود کا امتناع : اسی طرح دو ایسے رب پایا جانا بھی ممتنع ہے جو مستقل بالذات ہوں یا آپس میں مدد گار ہوں ،رہی پہلی صورت کہ مستقل بالذات ہوں تو اس لیے کہ ایک کا پورے عالم کے نظام کے ساتھ استقلال (یعنی انفردااور