کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 325
عدمِ تناہی میں اشتر اک مقدار میں تساوی کا تقاضہ نہیں کرتا الا یہ کہ ہر وہ امر جس کو غیر متناہی قرار دیا جاتا ہے وہ ایک محدود مقدار ہو اور یہ بات تو باطل ہے اس لیے کہ جو شے غیر متناہی ہوتی ہے اس کے لیے کوئی محدود حد اور مقدارِ معین نہیں ہوتی بلکہ وہ تو دگنے عدد کے بمنزلہ ہے جس طرح کہ ایک اور دس اور سو اور ہزار ان کا اس تضعیف میں اشتراک جو غیر متناہی ہے ،ان کی مقداروں کی تساوی کا تقاضہ نہیں کرتا ۔ جس طرح کہ یہ واضح ہے کہ ایک اور دس اور سو میں بڑا فرق ہے اسی طرح یہ بات بھی کہ یہ دونوں دو طرفین میں سے ایک طرف سے متناہی ہیں اور دوسرے طرف میں غیر متناہی ہیں جو طرفِ ماضی ہے اور ایسی صورت میں کسی قائل کا یہ کہنا کہ غیر متناہی میں تفاضل لازم آئے گا یہ غلط ہے اس لیے کہ یہ تو مستقبل میں حاصل ہوا اور یہی وہ ہے جو ہمارے قریب ہے اور یہ تو متناہی ہے اور پھر یہ دونوں اُس طرف میں جو ہمارے متصل اور قریب نہیں ،اس میں یہ غیر متناہی ہیں اور وہ ازل ہے اور یہ دونوں متفاضل ہیں اس طرف سے جو ہمارے قریب ہیں جو ابد کا طرف ہے۔ پس یہ کہنا صحیح نہیں کہ غیر متناہی میں تفاوت واقع ہوا اس لیے کہ یہ بات تو اس پر مشعر ہے کہ یہ تفاوت اُس جانب میں حاصل ہوا جس کے لیے کوئی آخر اور انتہاء نہیں حالانکہ صورت اس طرح نہیں بلکہ تفاوت تو اس جانب میں حاصل ہوا جو متناہی ہے ،جس کے لیے کوئی آخر ہے اس لیے کہ وہ تو منقضی (ختم ہونے والا )نہیں ۔ پھر قوم کے ہاں اس کی طرف سے دو جواب ہیں : ۱) ایک یہ کہ کسی قائل کا یہ کہنا ہے کہ جو حوادث گزر گئے ہیں بتحقیق وہ معدوم ہو گئے اور جو ابھی حادث اور پیدا نہیں ہوئے تو وہ موجود نہیں ہے پس ان جیسے امور میں تطبیق یعنی موازنہ صرف ذہن میں فرض کیا جا سکتا ہے خارج میں اس کی کوئی حقیقت نہیں جیسے کہ اعداد کی تضعیف یعنی ان کو دگنا کرنا اس لیے کہ ایک کی تضعیف دس کے دگنے سے کم ہے اور دس کا دگنا سو کے دگنے سے کم ہے اور ان تمام امور میں ان تمام تضعیفات کی کوئی انتہاء نہیں لیکن یہ خارج میں کوئی امر موجود نہیں ہے۔ جو شخص بھی اس کا قائل ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ غیر متناہی امور کا اجتماع ممتنع ہے جبکہ وہ وجود میں مجتمع ہو ں خواہ اس کے اجزاء متصل ہوں جیسے کہ اجسام یا منفصل ہوں جیسے کہ انسانوں کے نفوس اور وہ یہ کہتا ہے کہ جو شے بھی وجود میں مجتمع ہے وہ متناہی ہی ہوتا ہے اور ان میں بعض وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ متناہی تو مجتمع ہے جس کا بعض بعض کے ساتھ متعلق ہے اس طور پر کہ اس کے لیے ایک ترتیبِ وضعی ہوتی ہے جیسے کہ اجسام ،جیسے کہ ترتیبِ طبعی ہوتی ہے ،جیسے کہ علل کے درمیان ۔ رہا وہ جس کا بعض بعض کے ساتھ متعلق نہ ہو جیسے کہ نفوس تو یہ بات اس میں واجب نہیں پس یہ دو قول