کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 323
تو پس جب انسان کا عمل دائم ہے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا ہر جزء بھی دائم ہو ۔
اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ یہ مجموعہ ایک اوقیہ کا عُشر ہے تو لازم نہیں آتا کہ اس کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء ایک وقیہ کا عشر ہو اس لیے کہ مجموعہ تو بعض اجزاء کا بعض دوسروں کے انضمام سے حاصل ہوا ہے اور افراد میں اجتماع موجود نہیں تھا اور یہ بخلاف اس کے ہے کہ یہ کہا جائے کہ اجزاء میں سے ہر ہر جزء یا تو معدوم ہے یا موجود یا ممکن یا واجب یا ممتنع ہے اور مجموعہ کے بارے میں یہ بات ضروری ہے وہ یا تو واجب ہوگایا معدوم یا موجود ہو یا ممکن یا واجب یا ممتنع ۔
اس طرح جب تو کہے کہ زنجی قوم میں سے اسود یعنی کالا ہوتا ہے تو پس بے شک (ان حالا ت سے خالی نہیں ) یاواجب ہوگایا معدوم ہو گایا موجود یاممکن یا واجب یاپھر ممتنع ۔
اسی طرح جب تو یہ کہے کہ زنجی قوم میں سے ہر ہر فرد اسود ہے تو یہ بھی واجب ہے کہ یہ مجموعہ بھی اسود ہو اس لیے کہ موجود کا موجود کے ساتھ اقتران اور اتصال اس کو اس کے موجود ہونے سے نہیں نکالتا اور معدوم کا معدوم کے ساتھ اقتران اس کو صفت عدم سے نہیں نکالتا اور ممکن لذاتہ اور ممتنع لذاتہ کا اقتران اپنے مثل کے ساتھ اس کو ممکن لذاتہ اور ممتنع لذاتہ سے نہیں نکالتا بخلاف اس کے کہ جو ممتنع لذاتہ نہ ہو ،الا یہ کہ وہ منفرد اور اکیلا ہو اور وہ اقتران سے ممکن بنتا ہو جیسے علم ،صفتِ حیات کے ساتھ اس لیے کہ یہ اکیلے تو ممتنع اور حیات کے ساتھ ممکن ہے ،اسی طرح دو ضدین میں سے کوئی ایک کہ وہ اکیلے تو ممکن ہے اور دوسرے کے ساتھ اس کا اجتماع ممتنع ہے ،پس دونوں متلازمین کا انفراد ممتنع ہے(یعنی دونوں میں سے ہر فرد کا دوسرے سے الگ انفرادی طور پر پایا جانا ) اور دونوں متضادین کا اجتماع ممتنع ہے پس اس تقریر کے ذریعے فنا ہونے والی آثارِ حادثہ کے دوام اور اتصال اور غیر متناہی ممکن معلولات اورعلل کے وجود کے درمیان فرق واضح ہوا اس لیے کہ لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو ان دونوں کے درمیان امتناع میں برابری کر دیتے ہیں جس طرح کہ اہل کلام میں سے بہت سے اس کے قائل ہیں او ر لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے یہ گمان کیا کہ صفتِ تاثیر امکان اورامتناع دونوں میں برابر ہے اس کے لئے یہ امر واضح نہ ہوا کہ علل اور معلولات کا غیر متناہی حد تک وجود ممتنع ہے اوراس نے یہ گمان کیا کہ یہ ایک ایسا مشکل مقام ہے جس کے امتناع پر کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی اگرچہ وہ کسی کا قول نہ ہو جس طرح کہ آمدی نے ’’رموز الکنوز ‘‘میں اور ابہری نے اور اس کے پیروکاروں نے ذکر کیا ہے اور ان دونوں انواع کے درمیان فرق واضح ہے اس لیے کہ حادثِ معین جب دوسرے حادثِ معین کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو دوام اور امتداد سے اور نوع کے بقاء سے وہ صفت حاصل ہو جاتی ہے جو افراد کو حاصل نہیں تھی پس جب مجموعہ طویل ،مدید ،دائم ،کثیر اور عظیم ہوگا یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہر ہر فرد بھی طویل ،مدید ،دائم ،کثیر اور عظیم ہو۔
رہے وہ علل اور معلولات جو مسلسل ہیں تو ان میں سے ہر ایک اکیلے ممکن ہوتا ہے اور دوسرے کے ساتھ