کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 320
نے اس بات کو آئمہ کرام سے نقل کیا ہے ۔
جیسے کہ عثمان بن سعید الدارمی اور اس کو اہل سنت سے نقل کیا ہے جیسے کہ جیسے امام بخاری صاحب الصحٰح اور ابو بکر ابن خزیمہ جس کو امام الآئمہ کہا جاتا ہے جیسے ابو عبد اللہ ابن حامد ابو اسماعیل الانصاری اس کو شیخ الاسلام کا لقب دیا گیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے وہ جن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی جانتے ہیں اور معتزلہ اس بات کے منکر تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کوئی صفت یا فعل قائم ہو اور اس بات کو انہوں نے یوں تعبیر کیا کہ ’’اللہ کی ذات سے ساتھ اعراض اور حوادث صادر نہیں ہوتے پس اس کی موافقت کی ابو محمد عبد اللہ ابن سعید بن کلاب نے اللہ کی ذات کے ساتھ مشیت اور قدرت کے تعلق کی نفی پر اور نفی صفات میں ان کی مخالفت کی اور انہوں نے اعراض نہیں کہا اور اس بات پر اس کی موافقت کی حارث بن اسعد بن حارثنی نے جو صوفی کے شیوخ میں سے ہے جو بغداد میں سن ۲۴۳ میں فوت ہو گئے ہیں طبقات شافعیہ میں ان کے احوال مذکور ہیں شجرات الزہب ،طبقات الکبرا میں طبقت صوفیا میں میزان الاعدال وغیرہ میں اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اس بات سے رجوع بھی کر لیا اور ابن کلاب کے مذہب کے بسبب اس کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا اور کہا گیا ہے کہ اس نے اس سے توبہ بھی کر لی ہے پس امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ،امام مالک، امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی گروہ ایسا نہیں کہ جو ابن کلاب کے قول کا قائل ہو جیسا ابو الحسنی تمیمی ،قاضی ابو بکر ،قاضی اابو اعلی،قاضی ابی المعالی، الجوینی اسی طرح ابن اکیل ،ابن زاغونی اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو جمہورِ محدثین کے قول کے قائل ہیں جیسے کے خلال اور اس کے اصحاب ابو بکر عبد العزیز،ابو عبد اللہ ابن الحامد ابو عبد اللہ ابن مندہ ابو اسماعیل بن انصاری ابو نصر السجسی ابو بکر محمد ابن اسحاق اور ابن خذیمہ اور ان کے متبعین اور اس پوری بات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جو ہے کیا اس کے ساتھ ایسی شے قائم ہو سکتی ہے کہ جو اس کی مشیت اور قدرت سے متعلق ہو جیسے کہ افعالِ اختیاریہ تو یہاں دو قول ہیں جو لوگ اس کو ثابت کرتے ہیں اور تعلیل کو ثابت کرتے ہیں تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو جو اس کے منکر ہیں یعنی معتزلہ اور شیعہ کہ تم تو کہتے ہو کہ رب تعالیٰ ازل میں معطل تھا فعل سے نہ وہ متکلم تھا اور نہ وہ فاعل تھا اورا سکے بعد اس نے کلام اور فعل کو پیدا کیا بغیر کسی سببِ حادث کے پس لازم آیا ممکن کے دو طرفین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجع ترجیح دینا اسی سبب سے تم پر فلاسفہ نے زبان درزای کی اور آئمہ اہل ملل یعنی دیگر فرق کے آئمہ نے ان کی مخالفت کی اورآئمہ فلاسفہ نے بھی ان کی مخالفت کی اور تم نے یہ گمان کیا کہ تم نے عالم کے حدوث پر دلیل قائم کی ہے چنانچہ تمہارا عقیدہ ہے کہ جو ذات بھی حوادث کے نوع سے خالی نہ ہو تو وہ حادث ہی ہوتا ہے اس لیے کہ ایسے حوادث کا وجود تو ممتنع ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہ ہو اور اس اصل پر تمہارے پاس کتاب اور سنت میں سے اور صحابہ اور تابعین کے آثار میں سے کوئی دلیل نہیں بلکہ کتاب و سنت اور صحابہ کے آثار اورجو ہے ان کے متبعین کے جو آثار ہیں وہ اس کے بخلاف ہیں اور نفس اور عقل تو اس بات پر دال ہیں کہ