کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 319
ذات ہر شے کے لیے قادر اور فاعل ہے تو وہ کسی بھی طور پر غیر کی طرف محتاج نہ ٹھہری بلکہ عللِ مفعولہ ہی اس کی مقدور اور اس کی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دل میں دعا (مانگنے کا داعیہ )ڈالتے ہیں اور ان کی دعا کو قبول کرتے ہیں اور ان کے دل میں توبہ ڈال لیتے ہیں اور ان کی توبہ پر خوش ہوتے ہیں جبکہ وہ توبہ کرتے ہیں اور ان کے دل میں طاعات پر عمل ڈالتے ہیں اور ان کو عمل پر ثواب دیتے ہیں ۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ مخلوق نے خالق کی ذات میں اثر کیا یا یہ کہ بندے نے ا پنی توبہ کے ذریعے خالق کی ذات کو دعا قبول کرنے ،ثواب دینے اور خوش ہونے کے لیے فاعل بنا دیااس لیے کہ حق سبحانہ تعالیٰ ہی تمام امور کا خود خالق ہے ،اس کے لیے سلطنت ہے ،اس کے لیے تمام محامد ثابت ہیں اور ان تمام امور میں سے کسی بھی شے میں اس کے لیے شریک ثابت نہیں اور وہ علم غیب کی طرف محتاج بھی نہیں اور وہ حوادث جن کا وجود صرف اور صرف متعاقب یعنی یکے بعد دیگرے ہے تو ازل میں ان کا عدم (نہ پایا جانا )نقص نہیں ہوتا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قول یہ تو حوادث کے اللہ کی ذات کے ساتھ قیام کو مستلزم ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گاکہ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو معتزلہ اور روافض کے بڑے شیوخ میں سے ہیں جیسے ہشام بن حکم ،ابو الحسین بصری اور ان کے متبعین اور ان کے علاوہ دیگر پر بھی ا سکا الزام آتا ہے اور متاخرین روافض جوبصری معتزلہ کے متبعین ہیں تووہ اس باب میں نفی کرتے ہیں اور وہ معتزلہ بصریین تو کہتے ہیں کہ اس کی ذات مدرک (جس کا ادراک کیا جائے )بنی بعد اس کے کہ نہیں تھی اس لیے کہ ادراک ان کے نزیک موجود کے ساتھ متعلق ہیں جیسے کہ سمع اور بصر ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ک ذات ارادہ کرنے والی بنی بعد اس کے کہ نہیں تھی رہے بغدادئین تو انہوں نے اگرچہ ادراک اور ارادے کا انکار کیا ہے پس وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی ذات فاعل بنی بعد اس کے کہ نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی ذات کے لیے احکام اور احوال کے تجدد کا قول ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس مسئلہ سے باقی جماعتوں پر الزام آتا ہے یہاں تک کہ فلاسفہ بھی اور ان کے متقدمین نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے اور بعض فضلاء متاخرین نے بھی اور کہا جاتا ہے کہ وہ متقدمین جو ارسطو سے پہلے تو وہ اس کے قائل تھے اور ابو البرکات جو صاحب المعتبر ہیں وہ بھی اس کے قائل ہیں اور یہ مرجئہ اور شیعہ کرامیہ میں سے اہل کلام کاقول ہے اور ان کے علاوہ دیگر کا بھی جیسے ابو معاذ التومنی اوردونوں ہشام۔ رہے جمہورِ اہل سنت اور جمہور محدثین تو وہ بعینہ اس بات یا اس کے ہم معنی کے قائل ہیں اور اگرچہ ان میں سے بعض وہ ہیں جو صرف الفاظِ شرعیہ کے اطلاق کو اختیار کرتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو شرعی معانی کی تاویل ایسی عبارات کے ساتھ کرتے ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں جیسے کہ حبِ کرمانی اور یہ بات اور اس