کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 318
اگر یہ کوئی کہے کہ فعل یا فعل کو فرض کرنا اس کے بارے میں یہ بات ممکن نہیں کہ اس کے لیے کوئی ابتدا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور بات جیسے کہ حرکت اور زمان تو جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات باطل ہے تو یہ تو خود بہ خود ہی دفعہ ہو گیا اور اگر یہ صحیح ہے تو جس بات کو ثابت کیا جاتا ہے وہ تو وہ کمال ہے جو ممکن الوجود ہے اور ایسے حال میں جبکہ نوع کے لیے دوام ثابت ہو تو ممکن اور اکمل ذات ہی تمام افراد میں سے ہر فرد پر متقدم ہوگی اس طور پر کہ عالم کے اجزاء میں سے کوئی شے بھی اس کے ساتھ کسی طور پرمقارن اور متصل نہ ہو اور رہا فعل کا دوام تو وہ بھی صفتِ دوام میں سے ہے اس لیے کہ فعل جب صفتِ کمال ہو تو اس کا دوام بھی کمال کا دوام ہے اور اگر وہ صفتِ کمال نہیں تو پھر اس کادوام بھی واجب نہیں پس دونوں تقدیروں پر عالم میں سے کوئی شے بھی قدیم نہیں ٹھہرے گی اور اس بات پر اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ میں تفصیلی کلام عرض کیا جا چکا ہے۔ قدوم عالم اور حکمت و تعلیل کے مسئلہ میں کلام کے درمیان ارتباط کی وجہ یہاں تو مقصود اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کا ماخذ تعلیل کے مسئلہ میں کیا ہے جو تعلیل کو جائز سمجھتے ہیں ۔ تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ امر کہ جس پر شریعت اور عقل دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ماسوا سارے کے سارے اشیاء محدث اور موجود ہیں بعد اس کے کہ معدوم تھے اور اللہ کا ازل سے اس طرح ہونا کہ پہلے فعل سے معطل تھے (یعنی کسی چیز کا احداث نہیں کررہے تھے )۔ پھر آپ کی ذا ت سے افعال صادر ہوئے پھر شرع اور عقل میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کو ثابت کرے بلکہ یہ دونوں یعنی عقل اور شرح اس کے نقیض پر دلالت کرتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی وقت فعل سے معطل نہیں ہوئے اور جب کہ نوعِ حوادث اور ان کے اشخاص اور اعیان کے درمیان فرق معروف ہے اور مسلمانوں اور دیگر اہل ملل اور آئمہ فلاسفہ جو کہ عالم میں سے عالمِ بالا اور عالم اسفل میں سے ہر ہر شے کے حدوث کے قائل ہیں جبکہ ان کے اقوال کے درمیان فرق معلوم ہوا اور ایسے ہی ارسطو اور ان کے وہ اتباع جو قدمِ افلاک اور عناصر اربعہ کے قدم کے قائل ہیں ،ان کے اقوال کے درمیان تو اس باب میں غلطی اور صواب اور ٹھیک اور غلط بالکل جدا جدا واضح ہو گئے اور یہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے علوم میں سے ہیں اور یہ تعلیل کے قائلین کے خلاف ان لوگوں کے لیے مؤید جواب ہے جو تسلسل فی الآثار کے بطلان سے ان کے خلاف استدلال کرتے ہیں ۔ حجت ِ استکمال رہا حجت استکمال تو انہوں نے یہ کہا کہ یہ امر ممتنع ہے کہ رب تعالیٰ غیر کی طرف محتاج ہو یا یہ کہ ازل میں اس کی ذات میں کوئی ایسا صفتِ کمال نہ پایا جاتا جس کا ازل میں وجود ممکن ہو جیسے کہ حیات اور علم اور جبکہ اللہ کی