کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 317
اس لیے بھی کہ مخلوق کا کمال خالق سے مستفاد ہے پس کمال کا خالق خود کمال کے زیادہ احق ہوا اور وہ یہ کہتے ہیں کہ معلول کا کمال علت کے کمال سے مستفاد ہے اور جب اس کی ذات کے ساتھ کمال ممتنع نہ ہوا تو ضروری ہے کہ اس کے لیے صفتِ کمال واجب ہو اس لیے کہ اگر وہ ایسا ممکن ہو جو واجب بھی نہ ہو اور ممتنع بھی نہ ہو تو پھر وہ اپنے ثبوت میں اپنے غیر کی طرف محتاج ٹھہرے گا اور جو ذات اس طرح ہو تو واجب ا لوجود بنفسہ نہیں ہوتے پس اس کے لیے جو بھی صفتِ کمال ممکن ہوگا تو وہ اس کی ذات کے لیے واجب ہوگا۔
مفعول کی واجب سے مقارنت کا امتناع:
کئی وجوہ سے یہ بات ممتنع ہے کہ ذات کے ساتھ اس کا مفعول ازلاً مقارن ہو:
۱ ) ایک تو اس لیے کہ اس کا مفعول حوادث کے مستلزم ہے اور وہ اس سے جدا نہیں ہوتا اور جو شے بھی حوادث کو مستلزم ہوتا ہے تو یہ امر ممتنع ہوتا ہے کہ وہ کسی علتِ تامہ ازلیہ کا معلول بنے اس لیے کہ علتِ تامہ ازلیہ کا معلول اس سے بالکل متاخر نہیں ہوتا اور اگر وہ اس سے کچھ متاخر ہو جائے تو پھر وہ علت بالقوۃ کہلاتی ہے نہ کہ بالفعل اور پھر وہ اپنے فاعل ہونے میں ایک ایسی شے کی طرف محتاج ہوتی ہے جو اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہو اور یہ امر ممتنع ہے یعنی علت کا معلول کے ساتھ اتصال ہی ضروری ہے اور مفروض بھی یہی ہے ،پس یہ امر واجب ہے کہ وہ اس کے لیے مفعول بنے اور وہ اس سے صادر نہ ہو مگر دھیرے دھیرے اور جو بھی شے اس کے لیے مفعول بنے گی تو وہ حادث ہوگی بعد اس کے کہ وہ معدوم تھی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس کے مفعول کا ازل میں مقارن ہونا اس کے لیے اس کے مفعول بننے سے مانع ہے اس لیے کہ کسی شے کا مفعول بننا اور مقارن ہونا ،یہ عقلاً ممتنع ہے اور موجودات میں کسی شے معین کے بارے میں یہ امر معقول نہیں کہ وہ کسی معلولِ مبائن کے لیے علتِ تامہ بنے بلکہ جن امور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علت ہے تو یا تو اس کی تاثیر غیر پر موقوف ہوتی ہے (ایسی صورت میں )وہ تام نہیں ہوتی یا یہ کہ وہ اس سے مبائن اور جدا نہیں ہوتی اُن لوگوں کی رائے پر جو کہتے ہیں کہ علم عا لمیت کے لیے علت ہے اور ان لوگوں کے نزدیک جو احوال کو ثابت کرتے ہیں ورنہ جمہور تو یہ کہتے ہیں کہ علم ہی عا لمیت ہے ۔
رہا یہ کہ اگر یہ کہا جائے کہ ذات صفات کے لیے موجب ہے یا ان کے لیے علت ہے تو وہ حقیقت میں تو حقیقت میں اس کے لیے کوئی فعل یا تاثیر ثابت نہیں ،رہا یہ کہ اگر کسی ایسی شے کو فرض کر لیا جائے جو غیر میں مؤثر ہو تو یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ دونوں آپس میں مقارن اور متساوی ہیں اور کوئی ایک دوسرے پر زمان کے اعتبار سے سابق نہیں تو یہ بات بالکل معقول نہیں اور یہ بھی کہ اس کا غیر پر من کل وجہ مقدم ہونا ایک صفتِ کمال ہے کیونکہ جو ذات کسی پر من کل وجہ متقدم ہوتا ہے تو وہ اس سے اکمل ہوتا ہے جس پر وہ مقدم ہو ۔