کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 316
مخلوق نہیں ہے تو اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ غیر کی طرف کسی بھی اعتبار سے محتاج ہو اس لیے کہ وہ اپنے مفعول کی طرف محتاج ہوا اور اس کا مفعول خود اس کی طرف محتاج تو پھر مؤثرات میں دور لازم آئے گا اور اگر غیر کی طرف محتاج ہوا اور وہ وہ غیر دوسرے غیر کی طرف محتاج ہو تو مؤثرات کے اندر تسلسل لازم آئے گا اور ان دونوں میں سے ہر ایک معلوم البطلان ہے صریح عقل اور اتفاق عقلاء کے ساتھ ۔
پس اگر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ذات فاعلِ بنفسہ بن جائے تو پھر یہ بطریقِ اولیٰ ممتنع ہے کہ وہ کسی ایسے فاعل کے لیے فاعل بنے جو بنفسہ فاعل ہو خواہ اسے لفظِ ’’فاعل‘‘کے ساتھ تعبیر کیا جائے یا ’’صانع ،خالق ،علت ،مبدأ اورمؤثرکے الفاظ سے ،ان تمام عبارات کے ذریعے دلیل صحیح بنتی ہے ۔
اسی طرح ایسے مفعولات کو فرض کرنا بھی ممتنع ہے کہ جس میں فاعل نہ ہو اور یہ تو ایسے آثار کو فرض کرنا ہے جن میں مؤثر نہ ہو اور ایسے ممکنات کو فرض کرنا ہے جن میں کوئی واجب بنفسہ ذات نہ ہو اس لیے کہ ان (اثر اور ممکن )میں سے ہر امر فقیر اور محتاج ہے اور ان کا مجموعہ ان کے آحاد کی طرف محتاج ہے پس یہ بھی ایک محتاج اور ممکن ہوا اور جتنا یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا تو فقر اور احتیاج بڑھتا جائے گا اور یہ درحقیقت ایسے معدومات کو فرض کرنا ہے جو غیر متناہی ہیں اس لیے کہ ان کی کثرت اُن کو معدوم ہونے کی حیثیت سے نہیں نکالتے پس یہ امر ممتنع ہوا کہ ان میں سے کوئی موجود ہو اور یہ سب اپنے مقام پر بیان ہو چکا ہے ۔
مقصود تو یہاں یہ ہے کہ ایک ایسے موجود کا پایا جانا ضروری ہے جو مستغنی ہو ،قدیم ہو اور واجب بنفسہ ہو اور اپنے تمام ماسوا سے مستغنی ہو اس طور پر کہ وہ اپنے غیر کی طرف کسی بھی صورت میں محتاج نہ ہو اور عالم میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنے غیر کی طرف محتاج ہے اور جو شخص غور کرے تو عالم کے ہر ہر جز میں فقر بالکل ظاہر ہے ،عالم میں سے کوئی شے بھی اللہ کے ماسوا بذاتِ خود نہیں پیدا ہوتا بلکہ وہ مستغنی اور بے نیاز نہیں ہوتا یعنی محتاج ہوتا ہے پس یہ امرممتنع ہوا کہ اللہ کے ماسوا عالم میں کوئی شے واجب الوجود بنے لہٰذاضروری ہے کہ ایک ایسا واجب ذات ہو جو ان تمام عالم کے اشیاء کو تھامنے والا ہو ،مستغنی ہو اور عالم کے مبائن (یعنی عالم کا غیر )ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے لیے ہر کمال ثابت ہو ،اس کی ذات میں کوئی نقص نہ ہو اس لیے کہ اگر وہ ان صفات کے ساتھ متصف نہیں ہوگا تو پھر کمال اس کی ذات کے حق میں ممتنع ہوگا اور یہ محال ہے اس لیے کہ مفروض تو یہ ہے کہ وہ ممکن الوجود ہے
اس وجہ سے بھی کہ بہت سے ممکنات بھی تو بڑی بڑی صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہیں تو ذاتِ خالق تو مخلوق کی بہ نسبت صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہونے کے زیادہ احق ہے اور قدیم ذات حادث کی بہ نسبت اس اتصاف کا زیادہ احق ہے اور ممکن کی بہ نسبت واجب اس اتصاف کا زیادہ احق ہے اس لیے کہ وہ اس کے وجود کے اعتبار سے اکمل ہے اور غیرِ اکمل کی بہ نسبت اکمل ذات کمال کے زیادہ احق ہوتی ہے ۔