کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 313
ان لوگوں سے لیے ہیں اور اس طرح وہ نظریات جس کے مجوس قائل ہیں یعنی نور اور عظمت کے قائل ہیں پس انہوں نے اس کو سابق اور تالی کے ساتھ تعبیر کیا جس طرح کہ اس کو اپنی جگہ پر بیان کیا گیا ہے اور مشرکین اور معطلہ کی بنیاد بالکل باطل ہے ۔
اسی طرح مجوس اور قدریہ ان کی بنیاد بھی بالکل باطل ہے جو کہ بعض حوادث کو اللہ کے صفتِ خلق سے نکال لیتے ہیں اور قدرت سے اور وہ اس کے لیے اور اس کے لیے ملک اور سلطنت میں اس کو شریک قرار دیتے ہیں اور یہ دہریہ تو ان سے بھی زیادہ بدترین ہیں اس لیے کہ ان کا قول توتمام حوادث کا اللہ کے خلق اور اس کی قدرت سے نکالنے کو مستلزم ہے اور اس کے ساتھ سلطنت اور حکومت میں بہت سے شرکاء کے اثبات کو مستلزم ہے بلکہ بالکلیہ صانع ذات کے تعطیل کو مستلزم ہے (یعنی کہ صانع کی ذات ہی موجود نہیں )اسی وجہ سے ان کے معلمِ اول یعنی ارسطو اور اس کے اتباع (پیروکار)وہ اس اول کو ثابت کرتے ہیں جس کو یہ حرکتِ فلک سے استدلال کرتے ہوئے علتِ اولیٰ کانام دیتے ہیں اس لیے کہ بے شک وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اختیاری اور شوقی چیز ہے پس ضروری ہے کہ اس کے لیے کوئی محرک ہو جو اس سے منفصل اور جدا ہوتا ہو اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ متحرک بالارادہ کے لیے ایسے محرک کا ہونا ضروری ہے جو اس سے منفصل اور جدا ہے اگرچہ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ ایک باطل قول ہے اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا محرک اس کو اسی طرح حرکت دیتا ہے جس طرح کہ امام مقتدی کو حرکت دیتا ہے اور کبھی اس کو اس حرکت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں جو معشوق کی طرف سے عاشق میں پیدا ہوتی ہے۔
اس لیے کہ محبوب جو مراد ہوتا ہے تو محب اس کا ارادہ کرنے والا ہوتا ہے ،متحرک ہوتا ہے محبوب کی طرف سے بغیر کسی حرکت کے پائے جانے کے ،انہوں نے کہا کہ یہی عشق اول کے ساتھ تشبہ کا عشق ہے ۔
حرکتِ شوقیہ کا عقیدہ اور ابن سینا اورفارابی کی ارسطو کے ساتھ موافقت
اسی طرح ان کے ساتھ ان کے متاخرین نے موافقت کی ہے جیسے کہ فارابی ،ابن سینا اور ان کے امثال ہیں اوریہ سب کے سب اس بات کے قائل ہیں کہ عالم میں حوادث کا سبب بے شک افلا ک کی حرکات ہیں اور افلا ک کی حرکات تصوراتِ حادثہ سے پیدا ہونے والی ہیں اور ایسی ارادات سے جو دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہیں اگرچہ وہ ایک کلی تصور اور کلی ارادے کے تابع ہے جیسے کہ وہ آدمی جو کسی خاص شہرکی طرف جانے کا ارادہ کرتا ہے ،جیسے مکہ مثلاً تو یہ کلی ارادہ ہے جو ایک کلی تصور کے تابع ہے پھر ضروری ہے کہ اس کے لیے ایسے تصورات متجدد ہوں جن کے ذریعے وہ مسافات کو قطع کرے اور ایسے ارادات کا پایا جانا ضروری ہے جو ان مسافات کے قطع کرنے سے سابق اور مقدم ہوں اسی طرح ان کے نزدیک حرکتِ فلک ہے لیکن اس کا جو کلی مراد ہے وہ تو اول