کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 310
ہیں کہ وہ فعل صا در کرتا ہے بغیر ارادے کے بلکہ ان کے نزدیک مرید یعنی ارادہ کرنے والا وہ فاعلِ عالم ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو ارادے کے حددوث کے قائل ہیں ۔ وہ جس ارادے اور فعل کو پیدا کرتا ہے وہ اپنی قدرتِ محضہ سے پیدا کرتا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک قادر ذات (وجود اور عدم میں سے ایک کو )بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے پھر ان لوگوں میں سے قدریہ کہتے ہیں :کہ وہ ایسے اشیاء کا ارداہ کرتا ہے جو وجود میں نہیں آتے اور ایسے اشیاء وجود میں آسکھتے ہیں جن کا وہ پیدا ہونے کا ارادہ نہیں کرتا اور بسا اوقات اس کی مشیئت ایسی اشیا ء کیساتھ متعلق ہوتی ہے جو موجود نہیں ہوتے اور بسا اوقات ایسے اشیاء وجود میں آجاتے ہیں جن (وجود ) کیساتھ اس کی مشیئت متعلق نہیں ہوتی ۔(بخلاف ان لوگوں کے جو مجبرہ ہیں قدریہ میں سے )۔ اہل سنت والجماعت اور وہ لوگ جو قدر اور دیگر صفات کا اثبات کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ فاعل بالاختیار ہے اور جب بھی کسی چیز (کے وجود )کو چاہتے ہیں تو (موجود )ہو جاتا ہے اور اس کا ارادہ اور اس کی قدرت اس کے لوازِم ذات میں سے ہیں خواہ اسے ایک قدیم ارادہ کہا جائے یا کئی پے در پے وجود میں آنے والے متعددارادے یا ایک ایسا قدیم ارادہ جو دوسرے ارادوں کے پیدا ہونے کو مستلزم ہو پس ان تین اقوال میں سے ہر قول پران کے نزدیک اس کی مراد کا موجود ہونا ضروری ہے اور جب ’’موجب بالذات ‘‘کو اس معنی کیساتھ تعبیر کیا جائے تو نزاع لفظی رہ جاتا ہے کیونکہ وہ دلیل جو انہوں نے ذکر کی ہے وہ ’’موجب بالذات‘‘ کی صورت میں بھی متصور ہے اور لفظ ’’علت ومعلول ‘‘،مؤثر اور اثر اور فاعل مختار کی شکل میں بھی متصور ہے اور وہ ان تما م عبارات کیساتھ عالم میں سے کسی بھی چیز کے قدم کے امتناع اور ماسوی اللہ تما م اشیاء کے حدوث کو ثابت کرتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں میں فاعل مختار کے بارے میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا اس کا ارادہ فعل سے پہلے پایا جانا ضروری ہے اور اس کے ارادے کا فعل کیساتھ مقارنت ممتنع ہے ؟یا اس کا اراد جو قصد سے عبارت ہے فعل کیساتھ مقارن ہونا ضروری ہے اور فعل سے پہلے جو پایا جاتا ہے وہ عزم ہے قصد نہیں ؟یا پھر یہ دونوں امر ممکن ہیں ؟گویا تین قول ہوئے ۔اور ہم نے ان تینوں اقوال کے اعتبار سے تما م ماسوی اللہ کے حدوث کا وجوب بیان کردیا ہے یعنی ان کے قول پر جو ارادے کا فعل کیساتھ مقارنت کو واجب کہتے ہیں اور ان کا قول جو مقارنت کو ممتنع کہتے ہیں اور ان کاقول جو دونوں امور کو جائز سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی ان کا قدرت میں بھی اختلاف ہے کہ کیا اس کا مقدور کیساتھ مقارنت ضروری ہے یا مقدور پر تقدم ضروری ہے اور مقارنے ممتنع ہے یادونون امر ممکن ہیں؟ فیصلہ کن بات اس میں یہ ہے قدرت تامہ کیساتھ ارادۂ جازمہ فعل کے وجود اور اس کیساتھ اس کی مقارنت کو مستلزم ہے پس کوئی فعل ایسی قدرت محضہ سے وجود میں نہیں آتا جو فعل کیساتھ مقارن نہ ہو اور نہ ایسے ارادے سے