کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 308
سے زیادہ اشیاء سے ،باوجود یکہ بسا اوقات وہاں پر کوئی ایسا معنی پایا جائے جو تاثیر کو روکتا ہے اور موجودات میں اور ایسی کوئی شے نہیں جو اکیلے اس کی ذات سے صادر ہوں سوائے اللہ تعالیٰ کے ۔ فلاسفہ کاعقیدہ : ذاتِ واحدہ سے صرف ایک ہی چیز صادر ہوسکتی ہے؛پررد: پس ان کا یہ کہنا کہ ایک ذات سے صرف ایک ہی صادر اور پیدا ہو سکتا ہے یہ ایک قضیہ کلیہ ہے اگر اس میں وہ لوگ اللہ کے ماسوا مخلوقات کو داخل کرتے ہیں تو اللہ کے ماسوا کوئی بھی شے ایسی نہیں کہ اکیلے صرف اسی کے تصرف سے اس سے کوئی شے صادر ہو اور اگر اس سے ان کی مراد صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو یہی بات محل نزاع اور محلِ دلیل ہے پس کیسے یہ بعینہ دلیل کامدلول بن جائے گا اور اس واحد کی حقیقت تو یہ خود نہیں جانتے نہ اس سے صدور کی کیفیت کو جانتے ہیں اور یہ بھی کہ جس ایک ذات کو یہ ثابت کرتے ہیں تو وہ ایک ایسا وجود ہے جوبعض کے نزدیک صفاتِ ثبوتیہ سے خالی ہے جیسے ابن سینا اور اس کے متبعین اور بعض دیگر کے نزدیک وہ صفاتِ ثبوتیہ اور سلبیہ دونوں سے مجرد اور خالی ہے اور ایسی شے کا خارج میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ خارج میں تو اس کا تحقق ممتنع ہے اور بے شک یہ ایسا امر ہے جس کو صرف ذہنوں میں فرض کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ دیگر ممتنعات کو فرض کیا جاتا ہے اسی وجہ سے اس بات میں ابن سینا نے جو کچھ ذکر کیا ہے اس کے ساتھ ابن رشد اور دیگر فلاسفہ نے اختلاف کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ ائمہ فلاسفہ کا قول نہیں اور ابن سینا اور ان کے امثال نے اپنی طرف سے ان کو گھڑا ہے اور اس وجہ سے ابو البرکات جو صاحب المعتبرہیں انہوں نے اس پر اعتبار نہیں کیا حالانکہ وہ اپنی نظر کے اعتبار سے حجتِ صحیحہ کے اتباع کی طرف ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور ان کے اسلاف کی تقلید سے عدول اور روگردانی کے اعتبار سے زیادہ بعید ہیں باجود یہ کہ ان کے حکمت اور فلسفے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عقلیات میں کسی کی تقلید جائز نہیں اور یہ بات بھی کہ جب اس ذات سے صرف ایک ہی صادر اور پیدا ہو سکتا ہے جس طرح کہ یہ لوگ عقلِ اول میں قائل ہیں تو وہ صادرِ اول اگر من کل وجہ ایک ذات ہے تو لازم آئے گا کہ اس سے بھی صرف ایک ہی صادر ہو اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا جائے گا اگرچہ اس میں ایک اعتبار سے کثرت بھی پائی جاتی ہے اور کثرت ایک وجودی شے ہے اس طرح کہ اول ایک ذات سے زیادہ افراد صادر (پیدا )ہوں اور اگر وہ عدمی شے ہے تو اس سے وجود صادر نہیں ہو سکتا پس صادرِ اول سے پھر کوئی ایک ذا ت بھی صادر نہیں ہو سکتا۔رہا ان کا اپنے اس دعوے پر اس قول سے دلیل پکڑنا کہ اگر اس سے دو اشیاء صادر ہوں تو اس شے کا مصدر ا س دوسرے کے مصدر کے علاوہ ہو گا یعنی اس کا منشأ اس دوسرے کے منشأ کے علاوہ کوئی اور ہو گا اور ترکیب لازم آئے گی حالانکہ ہم نے اس کو بسیط فرض کر لیا تھا: تو اولاً اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے اشیاء کا صدور نفسِ حرارت کے صدور کی طرح نہیں بلکہ وہ تو مشیت اور اختیار کے ساتھ فاعل ہے اور اگر مصدر کے تعدد کو فرض کر لیا جائے تو یہ امور اضافیہ کا تعدد ہے