کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 307
ہے جو اس سے مفارق اور جدا ہے؟ یا ایک ایسا عرض ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے ؟اسی وجہ سے ان کے کلام کے فساد کو بیان کرنے میں لوگوں نے بہت تفصیلات ذکر کی ہیں اور یہ اس لیے کہ یہ واحد ذات جس کو انہوں نے فرض کر لیا ہے اس کا وجود متصور نہیں مگر صرف اذہان میں اور پھر ان کا یہ کہنا کہ واحد سے صرف اور صرف واحد ہی صادر ہو سکتا ہے یہ قضیہ کلیہ ہے اور اگر وہ بعض صورتوں میں اس کے ثبوت کو جانتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ بھی کلیہ ہو مگر کسی قیاسِ تمثیل کے ساتھ پس کیا حال ہو گا اس کے بطلان کا حالانکہ وہ کسی ایسے فرد کو یقین کے ساتھ نہیں جانتے یعنی ان کو نہیں معلوم کہ جس سے کوئی شے صادر ہو ۔ وہ مثال جو وہ بیان کرتے ہیں یعنی آگ سے گرم ہونے کا صدور اور پانی سے ٹھنڈ ا کرنے کا صدور ،یہ مثال باطل ہے اس لیے کہ یہ آثار دو الگ الگ چیزوں سے صادر ہوتے ہیں ایک فاعل ہے یعنی اثر کرنے والا اورایک قابل یعنی اثر قبول کرنے والا اور اولِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ تو اس کی ذات کے علاوہ جتنے ماسوا ہیں وہ سب اس سے صادر ہیں وہاں وہ قادر اور موجود ہی نہیں اور اگر وہ یہ کہیں کہ خارج میں وہ ماہیاتِ ثابتہ جوفاعل سے غنی بے نیاز ہیں وہ بھی قبول کرنے والے ہیں تو یہ تین وجوہ سے باطل ہے : ۱) ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بات ان کے اصلِ فاسد پر مبنی ہے اور وہ خارج کے اندر ایسے ماہیاتِ موجودہ کا اثبات ہے جو اعیانِ موجودہ کے مغایر ہوں اور یہ قطعا باطل ہے اور جو بات یہ ذکر کرتے ہیں کہ مثلث کا وجود معلوم ہونے سے پہلے وہ خارج میں مثلث کے ثبوت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف ذہن میں اس کے ثبوت پر دلالت کرتا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو اشیاء اذہان میں حاضر ہوتی ہیں اور جو اعیان ،مشاہدہ اور حس میں ہوتی ہیں ان دونوں کے درمیان فرق ہے تو یہیں سے یہ بہت بڑی غلطی میں پڑ گئے اس لیے کہ انہوں نے ذہنوں میں بہت سے امور کا تصور کر لیا پس انہوں نے اعیا ن کے اندر بھی اس کے ثبوت کا گمان کر لیا جیسے کہ عقول اور ماہیاتِ کلیہ ہیں اور حیلولت اور اس کے امثال ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماہیات کا اعتبار ان کے وجود کے اعتبار سے ہے پس جو بھی شے وجود میں آتی ہے تو اس کے لیے ان کے ہاں ایک ماہیت ہوتی ہے جس طرح کہ کوئی کہنے والا اس بات کا قائل ہے کہ معدوم بھی کوئی شے ہے یعنی معتزلہ اور روافض میں سے بعض کی رائے یہ ہے پس صرف اس توہم کی بنا پر چند امور پرموجودات کو محدود کرنا جائز نہ ہوا کہ ان کے علاوہ کوئی ایسی ماہیت نہیں پائی جاتی جو وجود کو قبول کرے ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ کہا جائے کہ ماہیاتِ ممکنہ فی نفسہا کے لیے کوئی انتہا نہیں یعنی وہ لامحدود ہیں نیز ان میں سے یہ بھی ہیں کہ یہ کہا جائے کہ وہ فردِ واحد جو مشاہدہ میں نظر آتا ہے اورر جس سے اس کے آثار صادر ہوتے ہیں ا س کے بھی قوابلِ موجود ہیں اور باری تعالیٰ تو اپنی ذات کے ماسوا تمام اشیاء کے وجود کے لیے مبدع (از سر نو پیدا کرنے والے )ہوتے ہیں تو ایسا کوئی امر معلوم نہیں جو کسی ممکن سے (اکیلے )صادر ہو مگر دو