کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 306
کے لفظ سے کیا مراد ہے ؟
اگر اس سے مراد یہ لیا جائے کہ وہ ایک ایسی ذات کے ذریعے موجب ہے جو کہ مشیت اور قدرت سے مجرد اور خالی ہے تو ایسی ذات کے لیے کوئی حقیقت اور خارج میں کوئی ثبوت نہیں چہ جائے کہ وہ موجب بنے اورفلاسفہ کا قول تو تناقض پر مشتمل ہے اس لیے کہ وہ اول کے لیے ایک غایت اور انتہا ثابت کرتے ہیں اور عللِ غائیہ کو بھی ثابت کرتے ہیں اور یہ ارادے کو مستلزم ہے اور جب وہ غایت کی تفصیل محض علم سے کرتے ہیں اور علم کو محض ذات قرار دیتے ہیں تو یہ انتہائی درجے کا فساد اور تناقض ہوا اس لیے کہ ہم یقین سے اس بات کو جانتے ہیں اور بداہت کے ساتھ کہ ارادہ محض علم کا نام نہیں اور یہ بات بھی کہ علم محض عالم نہیں لیکن یہ اس باب میں فلاسفہ کے تناقض میں سے ہے اس لیے کہ وہ معانی متعددہ اور مختلفہ کو ایک ہی قرار دیتے ہیں پس وہ علم کو قدرت ہی کا مصداق بنا دیتے ہیں حالانکہ وہ ارادہ ہے اور وہ صفت کو نفسِ موصوف قرار دیتے ہیں جس طرح کہ وہ علم کا مصداق نفسِ عالم ٹھہراتے ہیں اور قادر بعینہ قدرت کو اور ارادہ بعینہ مرید کو یعنی ارادہ کرنے والے کو اور عشق ذاتِ عاشق کو قرار دیتے ہیں اور اس بات کی ان کے فضلاء نے تشریح کی ہے اور یہاں تک کہ وہ لوگ جو ان کی دفاع کرنے والے ہیں جیسے ابن رشد جس نے ابن حامدِ غزالی پر تھاف التھافت میں رد کیا ہے اور اس کے امثال اور یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر مشیت اور اختیار سے خالی کسی ذات کے وجود کو فرض کر لیا جائے تو اس تفسیر پریہ ممتنع ہو گاکہ عالم کسی موجب بالذات سے صادر ہو ا س لیے کہ اس اعتبار پرموجب بالذات اپنے موجب اور مقتضی کے ساتھ مستلزم ہوا پس اگر عالم کا مبدأ موجب بالذات ہو تواس تفسیر پر لازم آیا کہ عالم میں سے کوئی بھی شے حادث اور پیدا نہ ہو حالانکہ یہ مشاہدے کے خلاف ہے پس ان کا موجب بالذات کا یہ قول اللہ کی صفات اور اس کے افعال کی نفی کو اور عالم میں سے کسی شے کے حدوث کی نفی کو مستلزم ہے اور یہ تمام امور معلوم البطلان ہیں ۔
اس سے بھی زیادہ باطل امریہ ہے کہ انہوں نے اس کو ایک واحدِ بسیط قراردیا اور انہوں نے کہا کہ اس کی ذات سے صرف ایک ہی امر صادر ہو سکتا ہے اور پھر امو ر کثیر ہ کے صدور کے لیے انہوں نے کئی حیلے اختیار کئے جو کہ ان کے تحیر اور حیرانگی پر دلالت کرتے ہیں اور ان کی جہل کی علامت ہیں مثلاً اُن کا یہ کہنا کہ صادرِ اول وہ عقلِ اول ہے اور وہی موجود ہے اور واجب بغیرہ ہے ممکن بنفسہ ہے پس اس ایک عقلِ اول میں تین جہتیں ثابت ہوئے :
پس اس کی ذات سے اس کے وجوب کے اعتبار سے عقلِ آخر ثابت ہوا اور اسکی وجود کے اعتبار سے ایک نفس اور اس کے امکان کے اعتبار سے فلک۔
بسا اوقات وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کے وجود کے اعتبار سے صورتِ فلک اور اس کے امکان کے اعتبار سے اس کا مادہ اور نفسِ فلکیہ تو نفسِ فلکیہ یعنی فلک کے ذات کے بارے میں بھی ان کا نزاع ہے کہ کیا وہ ایک ایسا جوہر