کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 305
یہ لوگ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قادرِ مختار اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر کسی مرجح کے ترجیح دے سکتا ہے جس طرح کہ روٹیوں کے ساتھ کسی بھوکے کا حال ہے ،دو راستوں میں سے کسی ایک راستے پر چلنے والے کا حال ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بغیر مرجح کے ترجیح دیتا ہے پس ان لوگوں میں سے قدریہ تو یہ کہتے ہیں کہ بندہ قادر ہے اور اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو بغیر کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے جس طرح کہ وہ اس جیسی بات رب تعالیٰ کے بارے میں بھی کہتے ہیں اور اسی وجہ سے ان قدریہ کے اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل طاعت پر کوئی ایسے انعامات نہیں کئے جن کیساتھ اُن کو خاص کیا ہے جس کی وجہ سے انہون نے ا سکی اطاعت کی بلکہ اس کا مطیع اور غیر مطیع کو قدرت دینا برابر ہے لیکن اِس ایک نے بغیر کسی مرجح کے اُس کی اطاعت کرنے کو ترجیح دی ہے بلکہ محض اپنی قدرت کی وجہ سے بغیر کسی سبب کے اور دوسرے نے معصیت کو راجح قرار دیا محض قدرت کی وجہ سے بغیر کسی ایسے سبب کے پائے جانے کے جو اس کا موجب ہو ۔
رہے جبریہ جیسے کہ جہم بن صفوان اور اس کے اصحاب ہیں ؛تو ان کے نزدیک تو بندے کے لیے اصلا کوئی قدرت ہی ثابت نہیں اور اشعری معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ان کے موافق ہیں ،پس وہ یہ کہتا ہے کہ بندے کے لیے کوئی قدرت ثابت نہیں اور وہ ایک ایسی شے کو ثابت کرتا ہے جس کو وہ ’’قدرت ‘‘کا نام دیتا ہے اور جس کے وجود کو وہ عدم کے مساوی اور برابر قرار دیتا ہے اسی طرح وہ کسب جس کو وہ ثابت کرتا ہے اس کا بھی یہی حال ہے اور ان لوگوں کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ قدریہ کے قول کابطلان اس بات سے ثابت کریں کہ بندے کی فاعلیت (کسی کام کو جوددینا)کا اس کے تارکیت (فعل نہ کرنا )پر جو رجحان ہے اس کے لیے کسی مرجح کا ہونا ضروری ہے جس طرح کہ امام رازی اور جبریہ میں سے ایک گروہ اس طرح کرتے ہیں اور اسی وجہ سے تو اشعری اور اس کے قدمائے اور اصحاب نے اس حجت کو ذکر نہیں کیا اور لوگوں میں سے ایک گروہ جیسے امام رازی اور اس کے اتباع (پیروکار)ہیں جب انہوں نے معتزلہ کے ساتھ قدر کے مسائل میں مناظرہ اور بحث و تمحیص کی تو انہوں نے اس اصل اور بنیاد کو باطل کر دیا اور انہوں نے واضح طور پر یہ بنیاد بیان کر دیا کہ فعل کا وجود کسی مرجح تام کے وجود کے وقت واجب ہے اور یہ کہ اس کا فعل بغیر کسی مرجح تام کے (صادر ہونا )ممتنع ہے اور انہوں نے اس بات پر دلائل قائم کئے اور اِس کا دفاع کیا کہ قادرِ مختار ذات اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر کسی مرجح تام کے ترجیح نہیں دیتا اور جب حدوثِ عالم اور فاعلِ مختار کے اس مسئلے میں انہوں نے فلاسفہ کے ساتھ مناظرہ اور بحث کی اور اس طرح موجب بالذات کے قول کے ابطال کے بارے میں تو وہ اس قول کو اختیار کرنے میں معتزلہ اور جہمیہ کے طریقے پر چلے کہ قادرِ مختارذات اپنے دو مقدورین میں سے کسی ایک کو بغیر مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور وہ اکثر لوگ جو ابو عبد اللہ ابن الخطیب اور ان کے امثال کے طریقے پر چلے ہیں توتو ان کو پائے گا کہ وہ اس تناقض میں پڑ جاتے ہیں اور واضح اور فیصلہ کن بات تو یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ موجب بالذات