کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 303
کی وجہ سے جس طرح کہ مسلمان یہ کہتے ہیں : ’’ماشاء اللّٰہ کان وما لم یشأ لم یکن۔‘‘ پس جس چیزکو اللہ چاہیں تو اس کی مشیت سے اس کا موجود ہونا واجب ہے نہ کہ اس کی اپنی ذات کی وجہ سے اور جس کو اللہ نہ چاہیں تو اس کا کون اور اس کا وجود ممتنع ہے نہ کہ اس کی اپنی ذا ت کی وجہ سے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ تب ہی موجود ہوتا جب اللہ چاہیں پس جو اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں چاہا تو اس کا کون اور وجود ممتنع ہوا اور جب اس تقدیر پر دو باتوں میں سے کوئی ایک بات لازم ہے ۔ (۱)یا تو مراد کا ارادے کے ساتھ مقارنت (۲)یا اس کا اپنی ذات کی وجہ سے امتناع تو اس سے اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ اگر عالم میں سے کوئی شے کسی شے کا قدیم ہونا ممکن ہوتا تو یہ بات واجب ہوتی کہ اس کا کہ وہ قدیم ہوتا اس کے ازل میں اس کے ساتھ مقارنت کے وجود کی وجہ سے کیوں کہ یہ بات مفروض ہے کہ مقارنت کا وجود یا مراد کا امتناع یہ دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ضروری ہے پس جب مراد ازل میں ممکن ہے تو مقارنت بھی اس کے لیے ضروری ہے اور واجب ہے لیکن مقارنت کا وجود تو ممتنع ثابت ہوا لاس لیے کہ یہ تو اس بات کو مستلزم ہے کہ حوادث میں سے کوئی بھی حادث نہ ہو جس طرح کہ ماقبل میں گزرا پس اس میں آخری یعنی دوسری صورت ہی لازم آئی اور وہ ازل میں کسی مرادِ معین کا امتناع کا ثبوت ہے اور یہی ہمارا مطلوب ہے رہا یہ کہ اگر یہ کہا جائے کہ ارادے سے اس کی مراد کا تاخر واجب اورضروری ہے جس طرح کہ اہل کلام میں سے بہت سے اس کے قائل ہیں تو اس کی مرید ہونے یعنی ارادہ کرنے والی ذات ہونے کی تقدیر پر عالم میں سے کسی شے کا قدم ثابت ہونا ممتنع ہوا اور یہی ہمارا مطلوب ہے ۔ پس واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ تمام اشیاء کا حدوث ہر تقدیر پر ثابت ہوا اور یہی مطلوب ہے جان لو ! جس نے اس طریقے کو سمجھ لیا تو اس نے ان سے کئی امور کا استفادہ کر لیا یعنی کئی مور کو سمجھ لیا : ۱:اللہ کی ذات کے علاوہ تمام اشیاء کے حدوث کا ثبوت چنانچہ کہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ اجسام کے علاوہ بھی کوئی اور موجود چیز (اس عالم میں )ہے اس عالم میں جس طرح کہ وہ لوگ اس کے قائل ہیں جوعقول اور نفوس کو ثابت کرتے ہیں یعنی فلاسفہ اور متکلمین اور ان کا خیال یہ ہے کہ یہ ایسے جواہر ہیں جو اپنی ذات کے اعتبار سے قائم ہیں اور یہ اجسام نہیں ہیں ،اس طریقہ کے ذریعے ان اشیاء کا حدوث بھی معلوم ہو جاتا ہے ۔ متاخرین اہل کلام میں سے ایک جماعت کا خیال بھی یہی ہے جیسے شہرستانی، امام رازی ،آمدی اور ان کے علاوہ دیگر ،چنانچہ انہوں نے کہا کہ اہلِ کلام میں سے قدماء نے اس بات کی نفی پر کوئی دلیل قائم نہیں کی اور اجسام کے حدوث پر ان کی دلیل اس کو شامل نہیں اور اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ میں اس بات کو مفصلاً بیان کیا گیا ہے کہ یہ اہل نظر جیسے کہ ابو الہذیل علاف اور اس طرح نظام اور ہشام اور ابن کلاب ،ابن کلام اشعری ،قاضی ابوبکر ،ابو المعالی اور ابو علی اور ابو ہاشم اور ابو الحسن بصری ،ابو بکر ابن العربی ،ابو التمیمی ،قاضی ابو الاعلی ،ابو الحسن ابن