کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 302
انہوں نے یہ قول ،حوادث کے دوام اور حوادثِ ازلیہ کے وجود کے قول سے فرار کے لیے اختیار کیا ہے اور اس تقدیر پر حدوث عالم لازم آتا ہے ورنہ اگر حوادث کا دوام ممکن ٹھہرے تو ان کے نزدیک ازل میں مراد کا وجود بھی ممکن ٹھہرے گا اور اگر یہ بات ممکن ہوتی تو ارادہ قدیمہ ازلیہ سے مراد کے تاخر کا قول نہ اختیار کرتے باوجود یکہ اس میں وہ خرابی پائی جاتی ہے جو ہم نے بیان کر دی یعنی دو متماثلین میں سے کسی ایک کو بغیر کسی مرجح کے دوسرے کو ترجیح دینا۔ ایسے ہی اس میں عقلی طور پر جوشناعت اور قباحت بھی پائی جاتی ہے اور یہ بھی کہ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ عقلاء میں سے ایک جمِ غفیر کی اس بات کی طرف نسبت کی جائے کہ انہوں نے صریح معقول کی مخالفت کر لی اس لیے انہوں نے یہ قول اختیار کیا ہے بوجہ اس کے کہ ان کا اس بات پراعتقاد ہے کہ حوادثِ ازلیہ ممکن ہیں پس وہ اس بات کی طرف محتاج ہوئے کہ وہ ایک ارادہ قدیم ازلی کو ثابت کریں ایسا ارادہ جس سے اس کا مراد متاخر ہو اور اس کے بعد بغیر کسی سببِ حادث کے وہ حادث ہو اور وہ اس بات کے محتاج ہوئے کہ وہ یہ کہیں کہ ’’نفسِ ارادہ دو متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے ورنہ اگر وہ حوادث کے دوام کو جائز اور ممکن سمجھے اور ان کے تسلسل کا اعتقادرکھے تو پھر یہ ممکن ہے کہ وہ یہ بھی کہیں کہ ارادات اور مرادات حادث ہوں اور وہ یہ بھی کہیں کہ قدیم ذات کے ساتھ حوادث کا قیام بھی ممکن ہو اور وہ اپنے اس قول سے رجوع اختیار کر لیں کہ نفسِ ارادہ قدیمہ دو مثلین میں سے ایک کو دوسرے پر مستقبل میں ترجیح دیتا ہے اور اپنے اس قول سے (بھی رجوع کرلیں )کہ ایسے حوادث کا حدوث ممکن ہے جن کے لیے کوئی سببِ حادث نہ ہو اور وہ اس تقدیر پر عالم میں سے کسی شے کے قدم کے قائل نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے ماسوا سب کے سب حادث اور موجود ہیں بعد اس کے کہ وہ نہیں تھے اور یہ اسی تقدیر پر لازم آتا ہے اس لیے ایسی صورت میں جب حوادث میں سے کوئی بھی شے اس کا حدوث جائز او رممکن نہیں ہے مگر کسی سببِ حادث کے ذریعے اور کسی شے کے حدوث کے ساتھ دو وقتوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح کسی ایسے مرجح کے ذریعے حاصل ہوتی ہے جو اس کا تقاضا کرتا ہے پس مراد کا اپنے ارادے سے تاخر نہیں ہوگا مگر مراد کے مقارنت کے متعذرہونے کی وجہ سے ،اس لیے کہ اگر اگر مراد کا اپنے ارادے کے ساتھ اس کی مقارنت ممکن ہو اور یہ بات بھی ممکن ہو کہ و ہ اس سے متاخر ہے تو پھر دو زمانوں میں سے ایک کا احداث کے ساتھ تخصیص بلا مخصص اور ترجیح بلا مرجح ہوگا پس یہ بات معلوم ہو گئی کہ اس تقدیر پر دو باتوں میں سے ایک بات لازم آتی ہے یا تو مراد کا اردے کے ساتھ مقارنت کا وجود یا اس کا امتناع اور یہ بھی کہ اس کا ارادے کے ساتھ مقارنت واجب ہے جبکہ وہ ممکن ہو اور یہ بھی کہ وہ اس سے متاخر نہ ہو مگر اس صورت میں کہ اس کی مقارنت متعذر اور دشوار ہو یا بذاتِ خود اس کے ممتنع ہونے کی وجہ سے اور اس کے لوازم کے امتناع کی وجہ سے اور لازم کا امتناع ملزوم کے امتناع کا تقاضا کرتا ہے لیکن اس کی امتناع غیر کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی ذات