کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 301
جو شے حوادث سے سابق نہیں ہے وہ اس کے بمنزلہ ٹھہرا پس اِس(مسبوق) کا قدم بھی ممتنع ہوا جس طرح کہ ُاس(سابق) کا قدم ممتنع ہے ۔
اگر ان لوگوں کایہ اعتقاد اور الزام باطل ہے تو پھر حوادث کا دوام ممکن ٹھہرا اور اس تقدیر پر مراد کا اپنے ارادے کے ساتھ مقارنت بھی ممکن ہوا اصل میں اور کسی بھی شے کا حدوث ممتنع ہوا الا یہ کہ کوئی سببِ حادث پایا جائے اور اسی صور ت میں عالم میں سے کسی بھی شے کاازلی ہونا ممتنع ٹھہرا ۔
اگر یہ بات ممکن مان لی جائے کہ صرف نوعِ حوادث کے لیے دوام ثابت ہے یعنی وہ ازلی ہیں تو بے شک ازل کسی شے معین سے عبارت نہیں بلکہ کوئی بھی وقت ایسا نہیں جس کو فرض کر لیا جائے مگر یہ کہ اس سے پہلے ایک اور وقت پایا جاتا ہے پس نوع کے دوام سے کسی شے معین کا قدم لازم نہیں آتا
بے شک یہ کہا جاتاہے کہ کسی شے معین کا قدم ممتنع ہے اس لیے کہ جب ازل میں مراد کے ساتھ اس کی مقارنت ممکن اورجائز ہے تو یہ بات واجب ہے کہ وہ مراد کے ساتھ مقارن ہو اس لیے کہ وہ ارادہ جس کا اپنی مراد کے ساتھ مقارنت ممکن ہو اپنی مراد سے متخلف اور الگ نہیں ہوتا مگر قدرت میں کسی نقص اور کمی کی وجہ سے ورنہ تو اگر قدرتِ تامہ ہو اوروہ ارادہ جس کا اپنی مراد کے ساتھ مقارنت ممکن ہے وہ حاصل اور موجود ہو تو مراد کا حصول لازم ہے بوجہ اُس مقتضی کے پائے جانے کے جو فعل کے وجود کا تقاضا کرتا ہے اور وہ تام بھی ہے کیوں کہ اگر یہ بات لازم نہ ہو باوجود یکہ مراد ممکن ہے تو پھر اس کے بعد اس کے حصول سے یہ لازم آئے گا کہ دونوں متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر کسی مرجح کے ترجیح دے دی جائے اور اس تقدیر پر یہ امرباطل ہے اس لیے وہ لوگ جو ازل میں حوادث میں سے کسی معین حادث کے امتناع کے قائل ہیں (یعنی کسی ایسے خاص ممکن کا وجود نہیں ہے جو ازل میں پایا جاتا ہو )وہ یہ کہتے ہیں کہ ارادے میں سے کسی شے کا حصول ازل میں ممتنع ہے وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ ممکن ہے اور یہ کہ اس ارادے کا اپنے مراد کے ساتھ مقارنت ممکن ہے لیکن لوگوں نے ان پر یہ اشکالات وارد کئے ہیں :
جب تمام اوقات اور حوادث کی ارادہ ازلیہ کی طرف نسبت ایک ہی ہے تو دو وقتوں میں سے ایک کو ترجیح دینا ترجیح بلا مرجح ہے اور دو متماثلین میں سے ایک کو بغیر کسی مخصص کے خاص کر دینا ہے اور یہ کلام اس مقام پر ہمارے مقصود میں کوئی قادح نہیں ہے اس لیے کہ ہم اس قول کا دفاع نہیں کرتے لیکن ہم نے ہر تقدیر پر عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کے امتناع کو واضح طور پر بیان کر دیا اور اس بات کو بھی کہ حوادث کا دوام خواہ ممکن مان لیا جائے یا ممتنع پس بے شک دونوں تقدیرین پر عالم میں سے ہر شے کا حدوث یہ واجب ہے اوریہ کہ ارادہ خواہ اس کا اپنی مراد کے ساتھ مقارنت کا قول اختیار کیا جائے یا اس کا اس سے تاخر کے امکان کا قول ہر تقدیر پر عالم میں سے ہر ہر شے کا حدوث لازم آئے گا اس لیے کہ جو لوگ ارادے سے اس کی مراد کے تاخر کے قائل ہیں