کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 300
اول:.... یہ امرممکن اور جائز ہے کہ ارادے کے ساتھ اس کی مراد مقارن ہو ۔
دوم:.... یہ ارادے کے ساتھ اس کی مراد مقارن نہ ہو ۔
سوم:.... یہ کہا جائے کہ ارادے کے ساتھ اس کی مراد کی مقارنت ممتنع ہے تو ان تینوں تقدیرات پراللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا تمام چیزوں کا حدوث واجب ہے ۔
پہلی تقدیر پر تو اس لئے کہ اگر وہ ارادہ ازلی ہے تو یہ بات لازم آئی کہ تمام کے تمام مرادات ازلی ہوں پس عالم میں کوئی بھی شے حادث نہیں ٹھہرے گی حالانکہ یہ مشاہدہ اور حس کے خلاف ہے اور ہمارے اس قول کی مثال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ازل میں اشیاء کے لیے موجب اور محدث ہیں یا وہ اپنے معلول کی علت ِ تامہ ہے تو یہ بات لازم آئے گی کہ اس کے تمام موجبات اور اس کے تمام معلولات ازل میں اس کے ساتھ مقارن ہوں پس کسی بھی شے کا حدوث ممتنع ٹھہرے گا اگرچہ وہاں کوئی ارادہ حادثہ بھی پایا جائے اس لیے کہ اس میں کلام بالکل اُسی طرح ہے جس طرح کہ دوسرے حوادث میں کلام ہے کہ اگر وہ اس ارادہ ازلیہ سے حادث ہوتے ہیں جس کی اپنی مراد کے ساتھ مقارنت واجب ہے تو وہ ممتنع ٹھہرے گا اور اگر وہ بغیر کسی ارادے اور سببِ حادث کے حادث (پیدا )ہیں تو وہ ممتنع ٹھہرے گا پس واضح طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ ارادے کے ساتھ مراد کی مقارنت کے وجوب کے قول پر عالم میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ٹھہرے گا خواہ ارادے کے قدم کے قول کو اختیار کیا جائے یا اس کے قدم کے قول کو۔
یا بعض اشیاء کے قدم اور بعض کے حدوث کا اور اگر یہ کہا جائے کہ ارادے کیساتھ مراد کی مقارنت جائز اور ممکن ہے اور اس سے اس کاتاخر بھی ممکن ہے تو اس تقدیر پر پورے عالم کا ایک ایسے ارادہ قدیمہ ازلیہ کے ذریعے حدوث ممکن ٹھہرے گا جس میں بالکل تجدد نہ ہو جس طرح کہ کلابیہ کا یہ قول ہے اور ان لوگوں کا جو ان کے موافق ہیں یعنی اشعریہ کرامیہ میں سے اور ان فقہاء میں سے جو ائمہ اربعہ کی طرف منسوب ہیں اور اس تقدیر پر تو حوادث کا حدوث بغیر کسی سببِ حادث کے ممکن ٹھہرا ؛ایسے ہی دو متماثلین میں سے ایک کا دوسرے پر محض ایک ارادہ قدیمہ کے ذریعے ترجیح لازم آئی اور اس تقدیر پر عالم کے قدم کے قائلین کی حجت باطل ہو گئی اور ان لوگوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی کہ یہ آثار میں تسلسل کے بطلان کا عقیدہ رکھتے ہیں اورایسے حوادث کے امتناع کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کے لیے کوئی اول نہ ہو پس اگر ان کا یہ اعتقاد اور الزام حق ہے اور یہ کہ ایسے حوادث کا وجود ممتنع ہے جس کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی وہ ازلی ہوں تو ایسی صورت میں عالم کا حدوث لازم آئے گا اور قدم کا قول ممتنع ٹھہرے گا اس لیے کہ بے شک ان میں سے کوئی شے بھی حوادث کی مقارنت سے خالی نہیں ہوگی یہاں تک کہ عقول اور نفوس بھی ان لوگوں کے نزدیک جو اس کے اثبات کے قائل ہیں اسی لیے کہ یہ عقول اور نفوس کے قائلین کے نزدیک ان کا حوادث کے ساتھ مقارنت ضروری ہے پس ایسے حوادث کا وجود ممتنع ہے جو ازلی ہوں تو