کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 30
اور ضروری سمجھا وہاں پردیگر کتب سے اہم تحقیقات اور حواشی کا اضافہ کردیا۔
٭ علم کلام اور منطق کے مباحث جو کہ اس ترجمہ کی پہلی جلد میں تقریباً چار سو صفحات بنتے ہیں ؛ ان کا ترجمہ ایک پرانے شیخ الحدیث صاحب سے کروایا ہے۔جو کہ اصل میں پٹھان تھے۔ لہٰذا ترجمہ میں ان کے اس لہجہ کی حلاوت اور شگفتگی بھی محسوس ہوگی۔
٭ جہاں تک باقی کتاب میں ترجمانی کا تعلق ہے میری یہ مخلصانہ کوشش رہی کہ مصنف کا مطلب آسان سے آسان الفاظ میں واضح کر دوں ۔ اس بات کا افسوس ہے کہ کتاب کا بقیہ ابتدائی حصہ علم کلام کے انتہائی دقیق اورگہرے علمی مباحث پر مشتمل ہے اور میں انتہائی جہد و سعی کے باوجود بھی شاید اسے عام قارئین کے لیے اس درجہ کا قابل فہم نہیں بنا سکا؛ البتہ علم سے نسبت رکھنے والے اس کو بھی غنیمت سمجھ لیں ۔کیونکہ کتاب کے کسی حصہ کو حذف کرنا میرے بس کا روگ نہیں ۔ اس لیے عام قارئین سے صرف معذرت ہی کر سکتا ہوں ۔البتہ اہل علم و فہم اصحاب مطالعہ کی سمجھ سے کوئی چیز دور نہیں رہ سکتی۔
میں کسی درجہ میں بھی اپنی ترجمانی کو حرف آخر تصور نہیں کرتا، مجھے اپنی علمی بے بضاعتی اور کم سوادی کا پورا پورا احساس ہے، میں بارگاہ ربانی میں دعا گو ہوں ، کہ جس اجر و ثواب کی امید پر میں نے یہ خدمت انجام دی ہے اسے میرے لیے مقدر فرمائے۔
٭ ترجمہ کرتے ہوئے میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ جہاں کہیں کوئی مشکل عبارت یا توضیح طلب جملہ آجائے تو میں نے بین القوسین []اس کی وضاحت و شرح کردی ہے۔ چنانچہ اس پوری کتاب میں آپ کو عبارت میں یا سرخی میں ان دو قوسین []کے مابین عبارت ملے؛ اس کا تعلق شیخ الاسلام سے نہیں مترجم سے ہے۔
٭ کتاب میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ابن مطہر رافضی کی عبارت نقل کرتے پھر اس پررد کرتے۔ میں نے دونوں عبارتوں کو جدا کرنے کے لیے رافضی کی عبارت سے قبل [إشکال]؛[ الزام ] ؛[اعتراض]اور[کج فہمی ]کی عبارت اضافہ کی ہے ۔ اور پھر شیخ الاسلام کی عبارت سے قبل [جواب]لکھا ہے۔ اوراکثر و بیشتر اس کا خط اورسائز باقی عبارت سے بھی جدا رکھا ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی پیدا ہو۔ ;
٭ ایسے ہی جا بجا اعتراض نقل کرکے آخر میں یہ عبارت [انتہیٰ کلام الرافضی ]میرا اضافہ ہے۔
٭ کتاب کے حاشیہ پر جا بجا طویل نوٹ لگادیے ہیں جن سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
٭ میں نے عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رموز اوقاف کے استعمال کا خاص خیال رکھا ہے۔
٭ تخریج حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر حوالہ جات بھی دیے گئے ہیں ۔
٭ کتاب کا حجم کم رکھنے کے لیے کبھی کبھار حوالہ حواشی کے بجائے کتابی سطور میں ہی دیدیا ہے۔