کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 299
حقیقت کی وجود سے پہلے اس کی حقیقت (وجود نفس الامری )کے لیے کوئی داعی اور موجب ثابت نہ ہوا لیکن باری تعالیٰ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان امور کوجن کے فعل کا وہ ارادہ کرتے ہیں پس اس کا فعل اور اس کا ارادہ وہی امر ہے جو اختصاص کو ثابت کرتا ہے پس بتحقیق یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ جب فاعل کے ساتھ کسی مفعولِ معین کی مقارنت ازلاً یا ابداً ممتنع ٹھہرے یا یہ نقص ٹھہرا پس عالم میں سے کسی شے کا قدم بھی ممتنع ہوا ،لہٰذاکیا حال ہوگا جب ان دونوں میں سے ہر ایک ثابت ہو حالانکہ وہ ممتنع ہو اور اس کے امکان کے فرض کرنے کی صورت میں اس کے ذات میں نقص لازم آتا ہے ؟ ،اس لیے کہ اس کی نوع کا قدم اس کے عین کے قدم سے زیادہ اکمل ہے اور وہ امکان کا زیادہ احتمال رکھتا ہے یعنی امکان کے ساتھ اس کی زیادہ اولویت اور اختصاص ہے پس جب صفت امکان کے ساتھ اولیٰ چیز جو کہ اکمل ہے اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ اس کی نقیض ممکن بنے اور جب یہ بات ممتنع ہوئی تو عالم میں سے کسی شے کا قدم بھی ممتنع ٹھہرا اور اس تقدیر پر وہ تما م امور جو وہ ذکر کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی فاعلیت کا دوام ان کے اوپر حجت ہیں اس لیے کہ نوع کی فاعلیت شخص کی فاعلیت سے نسبتاً زیادہ اکمل ہے اور یہ وہی بات ہے جو حس اور مشاہدہ کے ذریعے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اس لیے کہ ہم آہستہ آہستہ نوع کی فاعلیت کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ پس جب فاعلیت کا دوام ممکن ہوا تو یہ ممکن ہوا اس کے وجود کی وجہ سے اور ہم توکسی شے معین کے فاعلیت کے دوام کو نہیں جانتے (یعنی اگر کسی معین کیلئے فاعلیت کا دوام ثابت ہوتا تو ہمیں معلوم ہوتا لیکن ایسا موجودنہیں ہے )پس فاعلیت کے دوام پر ہمارے علم سے کسی شے معین کا دوام لازم نہیں آتا ۔
نوع کا دوام اس کے افراد کے حدوث کا تقاضا کرتا ہے پس جو بھی اللہ کی ذات کے علاوہ ہے وہ سب کے سب حادث ہیں بعداس کے کہ موجود نہیں تھے اور یہی ہمارا مطلوب ہے پس یہ بات اچھے طریقے سے واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اس کی مقارنت کا قول اصل میں ممتنع ہے اور یہ اس کی ذات سے حوادث کے صدور کے لیے بھی مانع ہے اور اس میں اس بات کی کوئی حاجت نہیں کی کہ یہ کہا جائے کہ ارادہ حادثہ کے ساتھ اس کا مراد مقارن نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یوں کہا جائے کہ ارادہ حادثہ کے ساتھ اس کی مراد مقارن ہوتی ہے جس طرح کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ قدرتِ حادثہ کے ساتھ اس کا مقدور مقارن ہوتا ہے اگرچہ لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جو اس میں اختلاف رکھتے ہیں ۔
ارادے کے ساتھ مراد کی مقارنت کے بارے میں تین تقدیرات
یہاں مقصود یہ ہے کہ جب ارادے کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ارادے کے ساتھ اس کی مراد مقارنت واجب ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ماسوا تمام چیزوں کے حدوث پر دلیل ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ (یہاں تین صورتیں ممکن ہیں )