کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 298
نسبتاً زیادہ ممکن ہے ۔
اگر یہ دوسرا ممتنع ہے تو پہلا امتناع کے اعتبار سے زیادہ اشد اور اولیٰ ہے اور ہر ایسی شے جو مفعولات کے بعض ایسے افراد کے حدوث کو ثا بت کرے جن کا قدم ممکن ہے تو وہ بھی اس کے نظیر کے حدوث کے لیے موجب ہے اور فرض کر لیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حرکت اپنی ذات کے اعتبار سے بقا ء کو قبول نہیں کرتی لیکن حوادث تو بہت سے جواہرِکثیرہ ہیں جو دھیرے دھیرے وجود میں آنے والے ہیں پس عناصرِ اربعہ کے بارے میں اگر یہ بات ممکن ہے کہ وہ اعیان اپنی ذات کے اعتبار سے قدیم ہوں تو پھر ان کی صورت کو قدیم ماننا بھی ممکن ہوا پس اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلنا بھی جائز نہیں ٹھہرے گا حالانکہ یہ مشاہدہ کے خلاف ہے یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ اعیان (اجسام )ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتے جیسے بچے کی صورت شیخ (بوڑھے) کی صورت کے خلاف ہوتی ہے اور اگر ان کے اعیان کا قدم ممکن نہیں تو پھر مطلوب حاصل ہوا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ان کے استحالہ کا یعنی ایک شکل سے دوسرے شکل کی طرف تبدیل ہونے کی طرف موجب تو افلا ک کی حرکت ہے تو جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو اضطراری اور بدیہی طور پر معلوم ہے کہ افلاک کے تحرک کا امکان عناصر کا ایک شکل کا دوسرے شکل کی طرف تبدیل ہونے سے کم درجے کا ہے جس طرح کہ فلک ِ اعلیٰ کا تحرک نسبتا زیادہ ممکن ہے دوسرے کے استحالہ کی بہ نسبت اور فلکِ ثانی کے استحالے کو فرض کرنا اور ثالث کے استحالے کو فرض کرنا اور ان دونوں کے بقا کو فرض کرنا عناصر کے ایک شکل سے دوسرے شکل کی طرف استحالہ اور ان کے بقا ء کو فرض کرنے کی طرح ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہے نہ کہ دوسرا، پس معلوم ہو گیا کہ یہ ایک ایسے امر خارج کی طرف راجع ہے جو ان مفعولات کے ساتھ متعلق ہیں جو فاعل کی مشیت اور حکمت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں اس لیے کہ یقیناً ہم اس بات میں کوئی نزاع اور اختلاف نہیں کرتے کہ کسی شے کا فعل اس کے لوازم کے فعل کو ثابت کرتا ہے اور اس کے اضداد کے وجود کے منافی ہوتا ہے اور یہ بات بھی کہ کسی شے کے فعل سے حکمت مطلوبہ کئی امور ہو سکتے ہیں :کبھی اس کے دواعی اورکبھی اس کے موانع ہوتے ہیں ،کبھی اس کے کچھ شروط ہوتے ہیں پس وہ خالق ذات جس کی حکمت نے حیوانات اور نباتات اور معادن کے انواع کے احداث کا تقاضا اور ارادہ کیا تو اس نے اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ ان کے مواد کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منقل کیا جائے لیکن مقصود تو یہ ہے کہ دونوں جسموں میں سے کسی ایک جسم کے لیے بھی ایسی حقیقت ثابت نہیں جو اپنی ذات کے اعتبا رسے قدم کے ساتھ اس کے اختصاص کا تقاضا کرے( دو سرے کو چھوڑ کر یعنی اس پر ترجیح کی کوئی وجہ نہیں )
خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ خارج میں تو صرف کسی موجودِ ثابت کی حقیقت مسلّم ہوتی پس اس کی