کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 297
صفتِ کمال واجب ہے اور صفتِ نقص اور عیب سے اللہ کا تنزہ اور تقدیس بھی واجب ہے اور اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ یہ امربداہۃً معلوم ہے کہ ایک مفعول کو دوسرے مفعول کے بعد پیدا کرنا جب کہ یہ سلسلہ غیر متناہی حد تک جاری رہے ،اِس کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہے کہ وہ کسی ایسے مفعول کو وجود دے جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہو بشرطیکہ اس کو ممکن فرض کر لیا جائے اور جب یہ بات اکمل ٹھہری تو پس وہ ممکن ہی ٹھہرا کیونکہ مفروض تویہ ہے کہ اس کی ذات کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ وہ دھیرے دھیرے افعال کو وجود دے بلکہ یہ اس کی ذات کے لیے واجب ہے اور جب یہ ممکن ہے بلکہ اس کے لیے واجب ہے تو اس کا اس کے ساتھ اتصال واجب ہوا نہ کہ اس کے اس نقیض کا جو اس سے زیادہ انقص ہے ۔
اس میں کسی فعل سے یعنی احداث سے تعطیل ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ تو اکمل طریقے پرفعل کے ساتھ اتصال ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ فعلِ معین اور مفعولِ معین جو اس کی ذات کے ساتھ ازلاً و ابداً مقارن ہے ،وہ دوحال سے خالی نہیں (۱)یا تو وہ ممکن ہوگا (۲)یا وہ ممتنع ہوگا
اگر وہ ممتنع ہے تو پھر تو عالم میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ہوا اور یہی ہمارا مطلوب ہے اور اگر اسے ممکن فرض کر لیا جائے تو وہ پھر دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ وہ اکمل ہوگا یا نہیں ہوگا اگر وہی اکمل ہے تو یہ بات ضروری ہوئی کہ کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور ایسے وقت میں اس کا احداث اکمل سے عدول ہوگا اور یہ محال ہے اور اگر وہ اکمل نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض اکمل ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شے کو دوسرے شے کے بعد پیدا کرنا پس افعال میں سے کوئی شے بھی قدیم نہیں ٹھہرے گی ۔
اس پر صرف ایک ایسا سوال وارد ہوتا ہے جو کہ معلوم الفساد ہے اور وہ یہ کہ فلک کے بارے میں تویہ بات ممکن نہیں کہ اس کا وجود متاخر ہو اور نہ حوادث کے بارے میں یہ بات ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی شے قدیم ٹھہرے ،اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے تو یہ تو مکابرہ ہے اس لیے کہ حال یہ ہے کہ اگر فلک سے پہلے کوئی اور فلک فرض کر لیا جائے اور اس سے پہلے بھی کوئی اورفلک فرض کر لیا جائے تو اس کا امتناع فلک کے دوام کے امتناع سے زیادہ بڑا نہیں بلکہ جب نوع میں کوئی فردِ واحد کا دوام ممکن ہوتا ہے تونوع کا بطریقِ اولیٰ ممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے یہ بات معقول نہیں کہ بشر میں سے کوئی ایک فرد تو قدیمِ ازلی ہو؛ ساتھ اس نوع کے قدم کے ۔
اگر تم نے یہ بات فرض کر لی ہے کہ یہ ایک ایسے امر کی وجہ سے ممتنع ہے جو اس کی ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف راجع ہے اس وجہ سے کہ اس کا ضد اور اس کا مناقض پایا جاتا ہے یا یہ کہ فاعل کی حکمت کے انتفاء کی وجہ سے یا اس کے مثل کوئی اور وجہ تو ہر ایسا امر جو مفعول کے نوع کے قدم کے منافی ہو وہ اس کے عین کے قدم کے بطریقِ اشد اور اولیٰ منافی ہے اور جب اس کے عین کا قدم جائز اور ممکن ہے تو افرادکے حدوث کی بہ نسبت نوع کا قدم