کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 296
بھی ہے اس لیے کہ اس کی ذات تو دو امرین متناقضین کا مقتضی ہوئی کیونکہ فعل اور مفعول کے افراد کے حدوث کا تقاضا کرنا اور اس کی نوع کا قدم کا تقاضا کرنا یہ دونوں مناقض ہیں بوجہ اس کے کہ وہ عین فعل اور مفعول کے قدم کا تقاضا کرتے ہیں ۔ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ یہ مفعول ان مفعولات کے غیر ہیں یعنی اس کے مغایر ہیں پس یقیناً یہ اس کے لیے ملزوم ہے اور اس کے بغیر وہ وجود میں نہیں آتا اور وہ نہیں موجود ہوتا مگر اس کی وجہ سے پس یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں اب اگر مفعولات آپس میں متلازم ہیں توان کے افعال اور ارادے بھی بطریق اولیٰ متلازم ہیں پس قدمائے ثلاثہ یعنی ارادہ معینہ ، اس کا فعل اور اس کے مفعولات یہ تینوں حوادث کے لیے ملزوم بنیں ۔ ایسے کہ اس کے لیے کوئی انتہاء ہی نہیں اور ایسی صورت میں تو اس کی ذات کسی مفعولِ معین کے فعل میں علت تامہ ازلیہ اور موجب بن گئی اور باقی حوادث میں وہ علتِ ازلیہ نہیں جو کہ اس کی فاعلیت کو پیدا کرتی ہے اور دھیرے دھیرے اس کے وجود کو اس کی تمام تک پہنچاتی ہے اور اس کی ذات تو انتہائی درجے کے کمال کے ساتھ موصوف ہے پس اگر اس طرح ہے اگر اس کا کمال اِ س بات میں ہے کہ جو شے اس کے اندر بالقوۃ ہے وہ بالفعل بھی ہو بغیر اس بات کے امکان کے اعتبار کرنے کے اور نہ اس بات کے کہ حوادث کا دوام اس کے بالکل حادث نہ ہونے سے اکمل ہے جس طرح کہ یہ فلاسفہ کہتے ہیں تو یہ بات ضروری ہے کہ اس سے پھر کوئی شے حادث نہ ہو اور وجود میں بھی کوئی شے حادث نہ ہو ۔ اگر اس کا کمال اس میں ہے کہ وہ کسی شے کو بھی پیدا نہ کرے دوسری شے کے بعد اس لیے کہ یہ اس بات سے اکمل ہے کہ اس کے لیے اشیاء کا یکے بعد دیگرے احداث ممکن نہ رہے اس لیے کہ فعل صفت کمال ہے اور فعل تو صرف اسی طریقے پر معقول ہے یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آتا ہے اس لیے کہ حوادث کا حدوث تو دائما وہ اکمل ہوتا ہے اس بات سے کہ وہ حادث نہ ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ بے شک جو شے بالقوۃ ہے وہ جنسِ فعل ہے اور یہ تو دائماًبالفعل ہے اور رہا تمام مفعولات کا یا مفعولات میں سے کسی شے معین کا ازلی ہونا تو بالقوۃ نہیں پس یہ بات بھی ممتنع ہوا کہ وہ بالفعل ہو۔ پس کسی مفعولِ معین کا اس کی ذات کے ساتھ مقارنت اور اتصال میں کوئی کمال نہ ٹھہرا خواہ وہ ممتنع ہو یا وہ ایسا نقص سمجھا جائے جو اس کی اس کمال کے منافی ہو جو اس کے ساتھ واجب ہے خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ یہ بات معلوم ہے کہ مفعولات میں سے کسی نوع کا دھیرے دھیرے پیدا ہونا اس بات سے زیادہ اکمل ہے کہ وہ فاعل کے ساتھ ازل سے ملی ہوئی ہو۔ پس دونوں صورتوں میں اس کی ذات سے اس کی نفی واجب ٹھہری پس اس کی ذات کے ساتھ کوئی بھی مفعول مقارن ثابت نہ ہوا لہٰذا عالم میں کوئی بھی شے قدیم ثابت نہیں ہوئی اور یہی تو مطلوب ہے ۔ یہ ایک مستقل برہان ہے جو اس قاعدے سے لیا گیا ہے جس کی بنیاد اس پر ہے کہ اللہ کی ذات کے لیے