کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 295
ارادے کے لازم آئے گا اور یہ تو اس کے ارداے کے بغیر حوادث کے حدوث اور پیدا ہونے کا تقاضا کرتا ہے پس وہ فاعل مختار نہیں بنے گا کیونکہ ارادہ حادثہ اگر اس کا فعل ہے تو بتحقیق وہ بغیر ارادے کے حادث ہوا ہے اور اگر وہ اس کا فعل نہیں اور پھر بھی وہ پیدا ہوا ہے تو حادث ہے بغیر اس کے فعل کے اور یہ ممتنع ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اس کے بارے میں تمام لوگوں نے جمہور نے معتزلہ بصرئین اور معتزلہ پر نکیر کی ہے پس ان کے اس قول میں کہ اللہ کا ارادہ حادث ہے بغیر ایک دوسرے ارادے کے اور یہ کہ اللہ کا ارادہ بغیر کسی محل کے قائم ہے ۔ اگر کہا جائے کہ بلکہ ازل سے اس کی ذات کے ساتھ حوادث کو وجود دینے والے ارادے قائم ہیں جس طرح کہ یہ بات وہ لوگ کرتے ہیں جو محدثین میں سے ہیں اور وہ فلاسفہ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں اور وہ ازل ہی سے ان تمام اشیاء کوپیدا کرنے والے ہیں جن کے وجود کو وہ چاہیں تو کہا جائے گا کہ اس تقدیر پر تو پھرکسی مفعولِ قدیم کے لیے کوئی ایسا ارادہ قدیمہ نہیں پایا گیا اور اگر کہا جائے کہ اس میں یہ بات اور یہ دوسری بات یہ دونوں جمع ہیں تو کہا جائے گا کہ یہ تو ممتنع ہے کیونکہ فاعل کے کسی مفعولِ معین کا بالخصوص فاعل مختار کا اس کے ساتھ ملازم ہونا یہ ممتنع ہے اور مفعول بالارادہ ہونے کی جہت سے تو ضروری ہے کہ وہ ارادہ اس پر مقدم ہو اور یہ کہ وہ ثابت ہو یہاں تک کہ وہ وجود میں آجائے یعنی اس کے مفعول کے وجود تک وہ ارادہ ثابت رہے بلکہ ایسا تو ہر مفعول میں مسلم ہے اور اس جہت سے کہ اس کی ذات کے ساتھ جو یکے بعد دیگر ارادے قائم ہیں تو ان کے مرادات بھی یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے ہیں اور اسی طرح اس کے وہ تمام افعال جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں اور وہ سارے کے سارے ارادات اس کی ذات کے لوازم میں سے ہیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک ارادہ قدیمہ کے مراد کے لے مرید بنے کیونکہ اگر وہ اپنے مراد کے لیے ملزوم ہیں تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ ازل میں کوئی حادث معین پایا جائے اور اس کا مراد اس سے متاخر ہو تو پھران مراد کے حصول میں وہ ارادہ ہی کافی ہے جو متاخر ہے پس وہاں پرکوئی ایسا مقتضی نہیں پایا گیا جو اس کے وجود کو چاہتا ہو پس وہ موجود نہیں ہونگے کیونکہ حادث تو تب موجود ہوتا ہے جب اس کا کوئی مقتضی تام پایاجائے ۔ لہٰذا یہ فرض کر لیا جائے کہ فاعل دھیرے دھیرے ارادہ کرتا ہے اور وہ فعل کو بھی یکے بعد دیگر وجود دیتا ہے تو یہ بات لازم آئی کہ یہ اس کے ذات کے لوازم میں سے ہو پس اس کی ذات ہی شیئاً فشیئاًافعال کے حدوث کا تقاضا کرنے والی ہو پس اس کی مفعولات بھی بطریق اولیٰ دھیرے دھیرے وجود میں آئیں گے اور جب صورتِ حال اس طرح ہے تو اس کی ذات ہی ان تمام افعال اور مفعولات کے حدوث کا تقاضا کرنے والی ٹھہری اور جب اس کی ذات ہی اس کا تقاضا کرنے والی ہے تو اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ یہ امرممتنع ہے کہ وہ کسی فعل یا مفعول کے قدم کا تقاضا کرتی ہو باجود یکہ ان دونوں کا ایک ارادہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ ان دونوں کو مستلزم